پچھلے ماہ مجھے ایک گروپ کے ساتھ لاہور کے کچھ مذہبی اور تاریخی مقامات دیکھنے کا موقعہ ملا۔ اِس گروپ کی خوبصورتی یہ تھی کے اس میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے۔فلحال مختلف گروپ سے مراد مسیحی اور مسلم ہی لوگ تھے جس کو ارینج ہمارے علاقہ کی ایک مشہور سماجی تنظیم ایوارڈ کے ایک پروگرام ”اُڑان“ نے کیا تھا۔گروپ میں زیادہ تعدا د نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تھی جن کی عمریں کوئی لگ بھک سولہ سے بیس کے درمیان ہونگی۔ یہ بچے مختلف سکولوں اور کالجوں کے تھے مطلب ایک مطالعاتی ٹوئر تھا۔ فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے مجھے توگاڑی سے زیادہ یہ ایک منی پاکستان دکھائی دے رہا تھا جس میں مختلف مذاہب کے لوگ بغیر ایک دسرے سے مذہبی اختلاف رکھے اورایک دوسرے کے سماجی و مذہبی فرق جانے اور بغیر کسی اختلاف کے سفر کر رہے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ خوبصورت بات یہ تھی کہ سب نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اور اپنی اپنی فیلنگ بھی بتائی کہ مختلف مذہبی فرق کے باجود کیسا لگ رہا ہے۔
پاکستان بھی ایک طرح کی گاڑی ہے جو اُنیس سو سنتالیس سے آج تک اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے پس اس چھہیتر سالوں میں ناجانے کتنے نشیب و فراز آئے کہ ہم کسی ایک جگہ کامیابی سے کھڑے نہیں ہوپائے۔ پچھلی سات دہائیوں سے ساتھ ساتھ چلتے ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کی وہ گانٹھیں باندھ لیں ہیں جو اب دانتوں سے بھی نہیں کُھل رہیں اور اس نفرت کی اس آگ کو ہماری صفوں میں چھپے دشمن آج بھی ہوا دے رہے ہیں۔ کبھی فرقوں کے نام پر تو کبھی عقیدوں کے نام پر، حالانکہ ہمارے درمیان یہ سماجی اور مذہبی فرق ہمارے معاشرے کی خوبصورتی ہے۔ بلکل جیسے گلدان میں لگے رنگ برنگے پھول کی مانند جن میں ہر ایک کی اپنی خوبصورتی اور خوش بو ہوتی ہے۔
سات گھنٹے کا یہ ٹوئر واقعی اپنے اندر ایک جادو کا سا اثر رکھتا تھا ہم سارا دن ایک ساتھ رہے لیکن سب ایک دوسرے کے ساتھ بے حد خوش۔سب نے ملکر لاہور کا کیتھڈرل (چرچ)دیکھا اور کچھ نے خوشی سے اور کچھ نے حیرت سے چرچ کی ایک ایک چیز کا بغور جائزہ لیا۔گروپ کے لیڈر نے نہائت خوبصورتی سے مسلمان بچوں کے سوالوں کے جواب دئیے اور ان کے کچھ ابہام دور کئے جو اس سے پہلے شائد ان کے ذہنوں میں کہیں کھٹک رہے ہونگے۔ ایک نئے احترام کا آغاز ہورہا تھا۔ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک دوسرے کو بغیر کسی تعصب کے سمجھنے کا موقعہ ملا۔ ایک دوسرے کے مذاہب میں پیار اور محبت کی چیزوں کو سامنے لایا گیا تاکہ جب یہ بچے اپنے گھروں میں جائیں تو دوسروں کو بھی بتائیں کے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کیسے ملکوں میں ترقی اور خوشحالی لا سکتی ہے۔
آج اگر ایک طرف نفرت اپنے عروج پر ہے تو محبت بھی ہاتھ میں پانی لیے نفرت کی آگ بجھانے میں پیچھے نہیں۔ ہم سب نے تحریک پاکستان سے ایک ساتھ سفر طے کیا تھا ہمارے ساتھ اور بھی بہت سے ملکوں نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس میں سب سے ہم کردار مذہبی ہم آہنگی اور امن کا ہے۔ ایک دوسرے کو جگہ دینے کا ہے۔ آپ دیکھ لیں اس میں انڈیا ہو یا بنگلا دیش، مڈل ایسٹ میں امارات ہو یا سعودیہ آپ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کے ہمیں سب کے عقیدوں کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انڈونیشا، ملائیشا اور آزر بائیجان جیسے ملکوں نے اپنی پالیسیوں میں ایسی ہی اہم تبدیلیاں کی ہیں یہی وجہ ہے ہمارے بعدسے آزادہونے والے ممالک ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔
یہ کرسمس کا مہینہ ہے اور پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی اس دن کو مذہبی ادب و احترام کے ساتھ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں جیسے ہی اس ماہ کا آغاز ہوتا ہے کچھ حلقوں میں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ ’میری کرسمس‘ کہنا چاہیے کہ نہیں۔ مطلب محض ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریف ہونے سے ایمان کو خظرہ لاحق ہو جائے گا حیرت کی بات ہے۔ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں کے احترام کے ساتھ محبت بڑھتی ہے۔ایک وقت تھا جب ہم سب لوگ، کرسمس، عید، ہولی،دیوالی، لوڑی سب اکٹھے مناتے تھے تب تو کبھی کسی کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ پس آج ہمیں ایک دوسرے کو کرسمس کے مبارکباد میں پہل کرکے محبت کے دیوان پر پہلی اینٹ رکھنی چاہئے تاکہ ہماری آئندہ نسل ایک پر امن پاکستان میں رہ سکیں۔
آج اگر ہم نے اُس سماجی تنظیم کی طرح یا پاکستان میں اور بھی لوگ جو امن کے لیے کام کر رہے ہیں اُن کا ساتھ نہ دیا تو ہماری ترقی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔آئیں ملکر ایک دوسرے کا ہاتھ تھا م کر آگے بڑھیں۔ نفرت اور تعصب جیسی لعنت کے دانت کھٹے کر دیں۔ ملک کو امن، محبت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔پاکستان پائندہ باد۔

By admin