آئیں ان سوالوں کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔پاکستان بھر کی مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 7 جون 2022ءتک الیکشن کمیشن کے مطابق 3956336ہے۔ جن میں ہندو ووٹرز 2073983مسیحی1703288اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 174165ہیں۔(یہ حیران کن بات ہے مارچ2018میں ہندو ووٹرز1777289 ، مسیحی ووٹرز1638748تھے اس طرح مسیحی ووٹرز تب ہندوں سے138541کم تھے لیکن اب مسیحی ووٹرز ہندو ووٹروں سے370695 کم ہیں)۔ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد2217141 ہے۔جس میں سے ہندو ووٹرز 1936749مسیحی ووٹرز254731 جبکہ دیگر ووٹرز کی تعداد 25661ہے۔پنجاب میں کل اقلیتی ووٹرز 1641838جس میں سے مسیحی ووٹرز 1399468ہندو ووٹرز 103658اوردیگر اقلیتی ووٹرز 138709ہیں۔
بلوچستان میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 51245 جسں میں ہندو ووٹرز 28551 مسیحی ووٹرز 20761 دیگر اقلیتی ووٹرز 1933ہیں۔کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹرز 46115 مسیحی ووٹرز 33328 ہندو ووٹرز 5025دیگر اقلیتی ووٹرز 7762ہے۔اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41977 مسیحی ووٹرز 38744دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3233 ہے۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے بارے میں بھی بہت ابہام پائے جاتے ہیں. جس کا اندازہ آپ ماضی و حال کے اعداد و شمار سے بھی لگا سکتے ہیں۔ پاکستان میں1951ءکی افراد شماری کے اعدادو شمار کچھ یوں ہیں۔ مسیحی432706، شیڈول کاسٹ369831، ہندو جاتی160664 تھے ۔ کل ہندو آبادی530495تھی۔مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے97789 زیادہ تھی۔ 1961ءکی افراد شماری میں مسیحیوں کی آبادی583884تھی. شیڈول کاسٹ418011، ہندو جاتی 203794 تھی۔ کل ہندو آبادی621805تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 37921 زیادہ تھی۔
1972ءکی افراد شماری میں مسیحی 907861، شیڈول کاسٹ603369 اور ہندو جاتی 296837 آبادی تھی۔ کل ہندو آبادی900206تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے7655کم تھی۔1981ءکی افراد شماری میں مسیحی1310426تھے اس افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھااور ہندو جاتی آبادی 1276116 تھی ۔ 1981میں ہندو آبادی مسیحیوں سے 34310کم تھی۔ 1998ءکی افراد شماری میں مسیحی 2092902اور ہندو جاتی 2111271، شیڈول کاسٹ 285212 مجموعی ہندو آبادی2396483تھی. اور مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی۔ جبکہ 2017ءکی افراد شماری میں مسیحی2642048، ہندو جاتی3595256اور شیڈول کاسٹ 849614ہے۔پاکستان کی تاریخ کی اس سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی4444870ہو گئی ہے۔۔جو مسیحیوں کی آبادی سے 1802822 زیادہ ہو گئی ہے 1951ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے 209167 زیادہ تھی۔ 1961ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے214217 زیادہ تھی۔ 1972ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی سے 306532 زیادہ تھی1981ءکی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی نہیں تھا اور پھر 1998 میں ہندو جاتی آبادی شیڈول کاسٹ سے 1826059زیادہ ہو گئی۔ جس پر شیڈول کاسٹ کی آبادی کا جو تناسب ہندو جاتی آبادی سے زیادہ تھا وہ کیا ہوا؟ اور1982ءمیں یہ خانہ کیوں غائب ہو گیا
اور 1998ءمیں شیڈول کاسٹ جو 1951ء 1961ء 1972ءمیں ہندو جاتی سے بہت زیادہ تھے وہ اچانک اتنے کم کیسے ہو گئے ؟ اورپھر 2017ءمیں ہندوں جاتی کی آبادی 3595256ہو گئی ہے ۔ جبکک کہ شیڈول کاسٹ اور خصوصاً مسیحیوں کی آبادی کے پچھلی پانچ افراد شماریوں کے نتائج سے حیران کن طور پر بہت کم ہو گئی۔ ان حقائق کے ساتھ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گی ۔۔کہ جب مسیحیوں کی آبادی میں یہ ڈرامائی کمی اور ہندؤں کی آبادی میں یہ ہو شربا اضافہ ہوا تو وزیر شماریات ایک مسیحی تھا اور نیشنل اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین ایک ہندو تھا اوردونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔ کون سی کمیونٹی فائدے میں رہی اور کون سی خسارے میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سوال بنتا ہے کہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا؟ان سوالوں کے جواب اُس وقت کی حکومت اور ریاست پاکستان کے وہ ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ جو آبادی کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ کے بے تحاشاسماجی و سیاسی راہنما ہی لے سکتے ہیں۔ شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں میں ایک بات مشترکہ ہے۔کہ ان کے ہاں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں و این جی اوز کی بھر مار ہے۔ لیکن حقیقی مسائل کی طرف توجہ ذرا کم ہے۔
ان اعداد وشمار سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اپنی آبادی سے متعلق اعدادوشمار سے مطمئن کیوں نہیں ہیں۔2017ءکی افراد شماری جس میں مسیحیوں کی آبادی جو کہ ماضی کے اعدادو شمار کے مطابق 3738323 ہونی چاہیے تھی جو کہ یک لخت کم ہو کر 2642048 ہو گئی۔ یعنی وزارت شماریات کے کاغذات سے 1096275 تقریباً11لاکھ جیتے جاگتے انسان غائب ہو گئے جبکہ ان 17سالوں میں کوئی ایسے عوامل سامنے نہیں آئے مثلاً لاکھوں لوگوں کے اجتماعی نسل کشی یا اجتماعی ہجرت ہوئی ہے۔افراد شماری کے ماضی کا ریکارڈ شیڈول کاسٹ کی آبادی کے بارے میں بھی ایسے ہی حقائق بیان کر رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی اس وقت تقریباً90 لاکھ ہونی چاہیے۔تقریباًاس لئے کہ پاکستان کی تاریخ کی متنازعہ ترین افراد شماری2017ء کے مطابق اقلیتوں کی پاکستان میں تعداد7321908 جبکہ اگست2022ءکے الیکشن کمیشن اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد 4112761 ہے ۔۔جبکہ پاکستان میں ووٹ ٹو آبادی کا تناسب تقریباً آدھا آدھا ہے۔ اس حساب میں اقلیتوں کی آبادی 8225522ہونی چاہیے کچھ غیر سرکاری تنظیموں کی تحقیق کے مطابق مجموعی آبادی، خصوصاً خواتین کے شناختی کارڈز اور اسی حساب سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی تعداد10فیصد کم ہے اگر اس دس فیصد کو بھی شامل کر لیا جائے جو کہ822552 بنتا ہے تو اس طرح یہ آبادی 9048074 بنتی ہے۔
لیکن اگست2022ءکے الیکشن کمیشن کے مطابق اتنی آبادی کے 866 حلقوں میں پھیلے 4112762 ووٹرز جنکی شناخت پر 38 نمائندے ایوانوں میں ہیں اسکے باوجود یہ سب اس نظام سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ساری مذہبی اقلیتیں اس نظام سے خؤش نہیں ہیں ۔
پچھتر سال میں پندرہ بار انتحابات میں( 3) تین انتحابی نظاموں کے تجربات غیر مسلم پاکستانیوں پر ( 5)پانچ بار کئے گئے۔جسکی تفصیلات و خوبیوں خامیوں کی تفصیلات تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے بے لوث رضآ کار کتابوں ،کتابچوں، قومی و کمیونٹی کے اخبارات رسائل پنفلٹس، پوسٹرز،وڈیو کلپس، ٹی وی انٹرویوز، ؤ دیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے بیان کر رہےہیں ۔
ان پچھتر سال کے تجربات اور پاکستان کے معاشرتی ، سیاسی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے۔۔ اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے۔۔ تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔
”کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر سماجی طور پر اچھوت اور سیاسی شودر بن گئے تھے ۔ جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماﺅں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں“
لہٰذاجس طرح 1947ءسے 1970ءتک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ءسے1997ءتک کے تجربے سے سیکھ کر2002ءمیں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے، یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کابھی تقاضا ہے۔ اس سے یقینا ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سوال کے دوسرے حصے کے جواب کے ساتھ ۔۔۔۔،پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے زریعے شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام کے لئے جدو جہد کرتے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں ۔۔۔!تحریک شناخت آپ سے گزارش کرتی ہے۔..! کہ اقلیتوں کے موجود انتخابی نظام میں تبدیلی اور مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا محور و مرکزان تین نقاط کو بنائیں۔
ہر غیر مسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی،صوبائی، ضلعی،تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اورجنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔ 2001 میں اسی خیال سے دوہری نمائندگی کے نظام کو بحال کیا گیا تھا تاکہ ہر مذہبی اقلیت کی نمایندگی کو ایوانوں میں یقینی بنایا جائے ،لیکن اس انتحابی نظام کے اس مثبت پہلو کے ساتھ اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہے۔
دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لئے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔ گوکہ اس نظام سے جڑا دوسرا حصہ بہت ہی خطرناک تھا جو مذہبی اقلیتوں کو قومی سیاست، معاشرے، سماج سے کاٹ کر اچھوت اور سیاسی شودر بناتا تھا ۔
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینٹ،قومی،صوبائی اسمبلیوں میں ہو۔جس کے لئے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اورسندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے۔ وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان ،کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لئے درکار تعداد سے بہت کم ہے۔ وہاں آئین کے دیباچے/تمہیدِ (preamble)کے اس پیرا گراف کی بنیاد پر مذہبی شناخت پر اقلیتی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
”ترجمہ:جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے“۔ اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہو گی اوریہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنے گی۔
دوہرے ووٹ کے مطالبے کو تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی نمائندگی یقینی ہو۔اس مطالبے کو بخوبی سمجھ کر اس کے لئے اس یقین سے کوشش کریں کہ یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کسی بھی سیاسی جماعت، گروہ یا ریاست، حکومت کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوگی یہ آئینی ترمیم ملک وقوم کے استحکام کی بھی ضمانت ہوگی۔ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔چاروں صوبوں کے ساتھ اسلام آباد سے بھی اقلیتوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی دی جائے۔ جس سے اقلیتی سینٹرز کی تعداد 5ہوجائے گی۔قومی اسمبلی کی تعداد 10 سے بڑھا کر 19کی جائے۔۔ جسکی تفصیل یوں ہے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے لئے اوسطاً ایک ایم این اے 504274 ووٹوں کے حلقے سے بنتا ہے۔ جس کے مطابق مسیحوں کے تقریباً 3 ممبر قومی اسمبلی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔لیکن آئین میں دی گئی راہنمائی کی بدولت رعایت دے کر5 مسیحوں کی نشستیں اور ایک ہندوں کی اور ایک دیگر سب اقلیتوں کی نشست مخصوص ہو، جس سے اقلیتوں کے لئے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں کی جاسکتی ہیں۔ اسکے لئے مسیحوں کے 5 چھوٹے بڑے حلقے اور ہندوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے حلقہ پورا پنجاب ہی ہوگا۔
جب کہ پنجاب میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی 239403 ووٹوں سے ممبر منتحب ہوتا ہے۔اس حساب سے مسیحو کے تقریباً6 ممبران صوبائی اسمبلی بن سکتے ہیں لیکن آئینی رعایت کی روح سے 1399468 ووٹوں کو چھوٹے بڑے حلقے بنا کر8 نشستیں دی جاسکتی ہیں۔ہندو اور دیگر اقلیتوں کے لئے ایک نشست پورا صوبہ حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے جس سے پنجاب اسمبلی میں مجموعی اقلیتی ممبران کی تعداد 10 ہوجائے گی۔
اسلام آباد، 312760کے پی کے4736949 اور بلوچستان سے 323055 اوسط ووٹوں سے قومی اسمبلی کا ایک ممبر منتخب ہوتا ہے۔جبکہ اقلیتی ووٹوں کی تعداد ان وفاقی اکائیوں اور دارالحکومت میں اس میعار کے مطابق درکار ووٹوں سے انتہائی کم ہے۔ لہٰذا ان اکائیوں میں سے سب اقلیتوں کو ملا کر ایک ایک قومی اسمبلی کی نشست ہونی چاہئے۔۔ بلوچستان سے صوبائی ممبر اوسطاً 101429 ووٹوں سے اور کے پی کے میں سے صوبائی اسمبلی کا ممبر اوسطاً 186996 ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے ۔۔ ان وفاقی اکائیوں میں اقلیتی ووٹروں کی مجعوعی تعداد ( یہ اوپر درج ہے ۔)بھی اس میعار سے بھی بہت کم ہے ۔۔ لیکن آئینی رعایت کی بدولت بلوچستان سے مسیحوں کی ایک،ہندوں کی ایک اور دیگر اقلیتوں کے لئے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پورے صوبے کو حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے۔
جبکہ کے پی کے سے بلوچستان والے فارمولے سے تین صوبائی نشستیں اور ایک اضافی نشست پاکستان کی جغرافیائی , عقیدے وتہذیب کے اعتبار سے بلکل منفرد شناخت کی حامل اقلیت کیلاش کمیونٹی کے لئے مخصوص کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کے پی کے سے اس وقت بھی اقلیتوں کی(4) چار صوبائی نشستیں مخصوص ہیں۔۔ ۔ (لیکن وہ قومی سطح کے پارٹی سربراہان کی صوابدید ہے وہ چاہے تو ساری نشستیں کسی ایک اقلیت کو ہی بخش دے ۔)اس طرح کے پی کے سے اس فارمولے میں بھی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 4 ہوجائیں گی۔
سندھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست اوسطاً 429953 ووٹوں کے حلقہ انتخاب پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح اس میعار سے ہندوں کے ووٹوں کی تعداد ساڑھے 4 نشستوں کی بنتی ہے۔لیکن آئین کی روح سے انہیں رعایت دے کر 7 نشستوں پر حلقہ بندی کی جاسکتی ہے. اور مسیحوں کے لئے صوبہ سندھ سے ایک قومی اسمبلی کی نشست کے لئے حلقہ بنایا جاسکتا ہے۔گوکہ مسیحوں کے ووٹوں کی تعداد درکار تعداد سے کم ہے۔ دیگر اقلیتوں کی تعداد بھی بہت کم ہونے کے باوجود ان ساری اقلیتوں کی نمائندگی بھی سندھ جیسی اہم وفاقی اکائی سے یقینی بنانے کے لئے پورے صوبے کو ایک حلقہ بنا کر ایک قومی اسمبلی کی نشست دینی چاہیئے جس سے سندھ سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد9ہوجائے گی۔ ۔سندھ اسمبلی میں اوسطاً ایک ممبر صوبائی اسمبلی 188684ووٹوں کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔
اس حساب سے سندھ کے 1936749ووٹوں سوا گیارہ نشستیں بنتی ہیں جنہیں تیرا( 13) نشستوں کی چھوٹی بڑی حلقہ بندیوں میں تقسیم کر دیا جائے اور مسیحیوں کے ووٹ جو کے دو نشستوں سے کم ہیں انھیں ایک نشست کراچی کی اور ایک باقی سارے سندھ کی کر دی جائے یعنی دو حلقے بنا دیئے جائیں اور دیگر اقلیتوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے انھیں پورے صوبے کو حلقہ بنا کر ایک نشست دی جائے۔اس طرح سندھ سے اقلیتی ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد 16 ہوجائے گی۔ یوں مجموعی طور پر 5پانچ سینیٹر ،19ایم این اے 33 ایم پی اے ایز ملا کر یہ تعداد 57ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔جنکی تفصیل یوں ہے۔اسلام آباد ،کے پی کے اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک ایک اقلیتی نشست ،پنجاب سے 7اور سندھ سے 9ممبران قومی اسمبلی ہونگے ۔بلوچستان، سے 3کے پی کے سے 4 ممبران صوبائی اسمبلی اور پنجاب سے 10 سندھ سے صوبائی اسمبلی کی 16نشستیں ہونگی۔ یہ بات یاد رہے یہ آئین پاکستان کی کمزور طبقات کو دی گئی رعایت کے پیش نظر ہی ممکن ہے ورنہ اقلیتی ووٹوں کی سرکاری تعداد کے مطابق تو موجودہ38 کی تعداد بھی زیادہ ہی ہے۔اس سلسلے میں مزید تفصیلی کتابچہ پڑھنے کے لئے آپ تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے کسی بھی رضا کار سے رابط کر سکتے وہ آپ کی فکری معاونت و راہنمائی کے لئے حاضر ہیں۔
تحریک شناخت زندہ باد …. پاکستان پائندہ باد
کچھ عوامی سوال ہر شخص جواب دے سکتا ہے۔
سوال نمبر 1
ووٹ شہریت کی بنیاد پر بنتا ہے یاں مذہب کی بنیاد پر؟
اگر شہریت کی بنیاد پر ووٹ بنتا ہے تو شہریت ایک ہو تو ووٹ بھی ایک ہونا چاہیے۔اگر مذہب کی بنیاد پر ووٹ بنتا ہے تو بھی ایک ووٹ ہونا چاہیے۔ یعنی مسلم کا ایک ووٹ، ہندو کا ایک ووٹ اور مسیحی کا ایک ووٹ۔
یہ مسیحی دوہرا ووٹ کس بنیاد پر مانگ رہے ہیں۔
مجھے جہاں تک سمجھ آتی ہے چند ایک مسیحیوں کا مطالبہ ہے کہ ہمیں ایک ووٹ تو شہریت کی بنیاد پر دیا جاۓ اور دوسرا ووٹ مذہب کی بنیاد پر ملنا چاہیے۔
میرے عزیزو خود ہی بتائیے کہ اگر ملک کی
آبادی 25 کڑوڑ ہے تو 23کڑوڑ کے پاس ایک ووٹ کا حق ہو اور 2 کڑوڑ کے پاس دو ووٹوں کا حق ہو۔ یہ کوئی بات بنتی ہے۔
سوال نمبر 2
کیا دنیا میں کہیں دوہرا ووٹ رائج ہے؟ مجھے علم ہے کہ چند دوہرے ووٹ کے حامی آزاد کشمیر کی مثال دیں گے۔ میں واضع کر دوں کہ آزاد کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہے یعنی وہ آزاد کشمیر کے بھی شہری ہیں اور پاکستان کے بھی شہری ہیں۔ اس لیے ان کے پاس دوہرے ووٹ کا حق موجود ہے۔ان کا ایک ووٹ شہریت کی بنیاد پر اور دوسرا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے۔
سوال نمبر 3
دوہرا ووٹ جداگانہ انتخاب کی ایک شکل ہے۔ یعنی ایک ووٹ ہمیں جداگانہ انتخاب کی مد میں دیا جاۓ اور دوسرا ووٹ ہمیں مخلوط انتخاب کی مد میں دیا جاۓ۔ یعنی مسیحیوں کے لیے ایک ایسا طرز انتخاب کا مکسچر تیار کیا جاۓ جو دنیا کے کسی کونے پر رائج نہیں یعنی جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا مکسچر۔
میرے نزدیک دوہرے ووٹ کا عجیب مطالبہ ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ لہذا مطالبہ کرتے وقت ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارا مطالبہ ماورائے آئین و قانون تو نہیں؟ کیا ہمارا مطالبہ قابل قبول بھی ہے یاں ہم وہ مطالبہ کر رہے ہیں جو کسی صورت قابل قبول ہی نہیں۔
آپکے سوال کا جواب اعظم معراج صاحب ہی دے سکتے ہیں۔