جیسے جیسے جنرل الیکشن قریب آ رہا ہے ویسے ویسے مذہبی اقلیتی برادری اور خصوصی طور پر مسیحی برادری کی طرف سے اپنے سیاسی مطابات کی دبی دبی آواز گونج واضح ہوتی جا رہی ہے ۔مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ مخلوطانتخابات میں ہم ہر دفعہ مسلم نمائندگان کو قومی و صوبائی اسمبلی کا ووٹ دیتے ہیں۔لیکن اُن کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی یا بلدیاتی انتخابات ہوں اور اگر کوئی مسیحی مسلم امیدوار کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے تو مسلم برادری مذہبی جانبداری کی وجہ سے مسیحی امیدوار کو ووٹ نہیں دیتی۔
اُول تو اس مذہبی جنونی معاشرے میں مسیحیوں کے پاس وسائل ہی کم ہیں اوراگر مسیحی نمائندہ ہمت کرکے کشیر دولت استعمال کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لے ہی لے تو مسلم برادری اسے مذہبی مقابلہ بنا لیتی ہے اور مسیحی نمائندگان کے اوصاف کو بلائے طاق رکھتے ہوئے مذہبی حمایت کے طور پرمسلم امیدوار کوہی ووٹ دیتی ہے خواہ یہ مسلم امیدوار مسیحی امیدوار سے کم پڑھا لکھا اور قدرے کم اوصاف کا مالک ہی نہ ہو۔مسلم برادری اسلامی فرض سمجھتی ہے کہ مسیحی نمائندہ کے مقابلے میں مسلم نمائندہ کو ووٹ دیاجائے۔لہذا ایسے مذہبی جنونی معاشرے میں مسیحی برادری نے ذہنی طور پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم مخلوط انتخابات میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے لہذا ہمیں کو ئی اور طرز انتخاب اپنا چاہیے تاکہ ہم بھی انتخابات میں ڈائرکٹ ووٹ لے کر قومی،صوبائی یا بلدیاتی انتخابات جیت سکیں اس نظریے کے تحت کچھ جداگانہ انتخابات کے جامی ہیں ۔
میں چاہتا ہوں کہ ان تینوں طرز کے انتخابات پر بل ترتیب بات کی جائے تاکہ ہم مسیحی برادری کو بہتر اور درست سمت کی نشاندہی کر سکیں اور مسلم برادری کو بھی باور کروا سکیں کہ مسیحی برادری کس قدر سیاسی دباؤ اور مذہبی جانبداری کی وجہ سے خوف کا شکار ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم مسیحی برادری کے جائز حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں احساس دلائیں کہ وہ بھی ارض پاکستان میں برابر کے شہری ہیں ۔یہ ملک صرف اکثریت کا ہی نہیں بلکہ اقلیت کی بھی اتنی ہی میراث ہے جتنی کہ اکثریت کی ہےاس طرح ہم سب بلاِامتیاز رنگ نسل اور مذہب خالصتاُپاکستانی بن کر رہیں گے اور مل جل کر سب اپنے وطن ِعزیز کے لیے ترقی اور عزت افزائی کا باعث بنیں گے۔
اب بات رہی دوہرے ووٹ کی تو جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کن خدشات کے پیش ِنظر مسیحی قوم دوہرے ووٹ کے نظریے نے جنم اور مسیحی اکابرین نے کیوں اسے اپنی سیاسی حیات سمجھ لیا،کیا اس کی پہلے بھی کوئی مثال ملتی تھی اور سب سے پہلے کس پارٹی نے دوہرے ووٹ کا نعرہ بلندکیا ۔یہ ساری باتیں جاننے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ دوہراووٹ ہوتا کیا ہے دوہرے ووٹ سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حق دیا جائے کہ ہم ملکی انتخابات میں مذہب کی بنیاد پر دو ووٹ استعمال کر سکیں یعنی پہلا ووٹ ہم مسلمان نمائندگان کو ڈال سکیں ۔اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی انتخاب میں مسلم اور مسیحی امید واران انتخاب لڑیں گے اور مسیحی امیدواران یا اقلیتی امیدواران صرف اپنے ہم مذہب والوں سے ووٹ لیں گے ۔اس طرح مسلم شہری صرف ایک ووٹ استعمال کریں گے جبکہ اقلیتی شہری دو ووٹ استعمال کریں گے ایک مسلم امیدوار کے لیے اور دوسرا اقلیتی امیدوار کے لیے ۔
دوہرے ووٹ کا نظریہ مسیحی قوم میں دو بنیادوں پر پیدا ہوا۔نمبر 1 تقسیم ہند سے پہلے برصغیر کی مسلم آبادی نے نعرہ لگایا کہ ہم مذہبی اعتبار سے الگ قوم ہیں چونکہ ہندو مذہب والے ہم سے زیادہ ہیں اور وہ ہم کو مذہبی جانبداری کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے جس کی بناء پر ہمیں دوہرا ووٹ دیا جائے تاکہ ہم ہندو اور مسلم امیدواران دونوں کو ووٹ دے سکیں ۔دوسری وجہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں جس میں آزاد کشمیر کے شہری پاکستان کے انتخابات میں بھی اپنا ووٹ استعمال کر تے ہیں اور آزاد کشمیر کے علحیدہ انتخابات میں بھی اپنا رائے حق دہی استعمال کر تے ہیں ۔ان دونوں مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے کچھ مسیحی بھرپور آواز میں دوہرے ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں ۔دوہرے ووٹ کا پہلا مطالبہ آزاد مسیحی لیگ جس کے سر براہ جناب جوشوا فضل دین صاحب تھے انہوں نے آج سے تقریبا50سال پہلے کیا اور پھر دبی دبی آواز میں پاکستان کے ہر الیکشن میں یہ آواز سنائی دینے لگی ۔جس کی گونج ہم 2024ء کے الیکشن میں بھی سن رہے ہیں۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا دوہرے ووٹ کا مطالبہ درست ہے؟کیا ہے قابل عمل ہے؟کیا دوہرا ووٹ کہیں رائج ہے؟کیا دوہرے ووٹ سے اکثریت اور اقلیت کے درمیان مزید فاصلے تونہیں بڑھ جائیں گے؟اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہمیں انفرادی طور پر اور من حیث القوم بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے مگر سب سے پہلے ہمیں اپنےمطالبات پر غور کر لینا چاہیےکہ ہمارا مطالبہ جائز ہے، قانونی ہے اور کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ تو عرض ہے کہ دوہرا ووٹ دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کس رائج نہیں ، ووٹ شہریت کی بنیا د پر ملتا ہے۔ جو بھی با لغ پاکستانی ہو گا اسے ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوگا۔ آزاد کشمیر کے کے شہریوں کے پا س دوہری شہریت ہے وہ پاکستانی بھی ہیں اور کشمیری بھی ہیں۔
اس پے اُن کے پاس دوہری شہریت اور دوہرا ووٹ ہے۔ اگر پاکستانی مسیحی بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں تو وہ بھی دوہرے ووٹ کا مطالبہ کر سکتے ہیں مگر سنگل شہریت کے ساتھ صرف مذہب کی بنیاد پر یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ جائزمطالبہ ہے۔ مذہب کی بنیاد پر دوہرا ووٹ کہیں بھی رائج نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر تو سنگل ووٹ بھی پوری دنیا میں کہیں رائج نہیں ہے۔ دوہری جانب حکومت کو نہیں کہ وہ ملکی اقلیتوں اور اکثریت کو مذہب کی بنیاد پر کئی حصوں میں ہر تقسیم کردے۔
حکومت کا اولین فرض ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں ہر تقسیم کو کم از کم سطح پر لائے ۔اگر حکومت دوہرے ووٹ کا مطالبہ تسلیم کرے تو ملک میں مذہبی تفریق و تقسیم ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گی ۔آخری بات کہ دوہرا ووٹ مسیحی قوم کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دےگا۔اگرہم اپنے حلقہ کے منتخب نمائندے کے پاس مطالبات کے کر جائیں گے تو وہ دو باتیں کہے گا۔اؤل یہ کہ اقلیتی مسائل کو بہتر طور پر حل کر نے کے لیے حکومت نے علحیدہ سے اقلیتی نمائندے مقرر کئے ہیں جنہیں آپ کے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے لہذا آپ اپنے مطالبات لے کر اُن کے پاس دوئم میں تو اکثریت کا نمائندہ ہوں میرے پاس تو اپنے کا م ہی ختم نہیں ہوتے لہذا آپ اپنے اقلیتی نمائندوں کے پاس جائیں۔دوسری طرف جب ہم اقلیتی نمائندوں کے پاس جائیں گے تو وہ ہمیں کہ سکتے ہیں کہ آپ اتنا سفر کرکے میرے پاس آئے ہیں جبکہ آپ نے اپنے انتخابی حلقہ کے مسلم نمائندے کو ووٹ دئیے ہیں آپ کا حق ہے کہ ان سے اپنے کام کروائیں ۔میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں آپ اپنے کام مسلم نمائندے کے پاس ہی لے کر جایا کریں۔لہذا ہم نہ ادھر کے رہیں گے اور نہ اُدھر کے رہیں گے۔
لہذا مسیحی قوم کو نہیں چاہیے کہ کوئی ایسا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھے نافذالعمل نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی دوہرا ووٹ رائج نہیں ہے ناہی حکومت پاکستان اسے رائج کر کے پاکستانی عوام کو مذہبی گرہوں میں تقسیم کر سکتی ہے، ناہی دوہرا ووٹ ہمار ےآئین اور دستور میں درج ہے اور ناہی اس کے نافذ ہونے سے مسیحی قوم کو کچھ فائدہ ہو سکتاہے۔ اس لیے مسیحیوں کو چاہیے کہ اس مطالبے کو ترک کرکے درست طرز انتخاب کو اپنائیں۔