فروری2024 کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر انتخابات کے لئے ہلکی پھلکی گہما گہمی نظر آنا شروع ہوگئی ہے جو بتدرئج بڑھے گی۔سیاسی کشیدگی کے ماحول میں انتخابی عمل کا مکمل ہو جانا بڑی کامیابی ہوگی تاہم انتخابی عمل میں اندرونی بیرونی عسکری مداخلت، اداروں کی جانبداری دھونس دھاندلی اور پیسے کے بے دریغ استعمال کو روکنا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی کے مرحلے کے ساتھ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لئے رائج طریقہ کار پر بھی بحث و مباحثہ کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایک طرف وہ افراد ہیں جو مخصوص نشست کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے تگ ودو میں ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا، سیاسی و سماجی تقریبات اور غیر رسمی گفتگو میں زیادہ تر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
جمہوریت کی روح کیا ہے؟
جمہوریت کے لغوی معنی ہی عوام کی حکومت ہے یعنی ایک ایسا سیاسی نظام جو شہریوں کی شمولیت اور رائے کے بغیر وجود ہی نہیں پا سکتا۔ جدید جمہوری نظام میں ریاست میں بسنے والے ہر شہری کو دیگرشہریوں کی مرضی اور منشاء کے ذریعے ان کی نمائندگی کا حق حاصل ہوتا ہے جبکہ تمام شہری ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کر کے بلواسطہ نظام حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ آج کے دور کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق شہری آئین اور قوانین میں طے شدہ مخصوص مدت کے لئے انتخابی عمل کے ذریعے ووٹ ڈال کر اپنی مرضی کی سیاسی جماعت یا نمائندے کو اقتدارتفویض کرتے ہیں جو انکے لئے فیصلہ سازی کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔
مخصوص نشستوں کا طریقہ کار کیا ہے؟
1985سے2002تک پاکستان میں اقلیتوں کے لئے جدا گانہ طرز انتخاب رائج تھا جس کے تحت اکثریت اور اقلیت مذہبی شناخت کی بنیاد پر الگ الگ اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے۔ 2002 میں ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ملک میں مخلوط انتخابات کا طریقہ کار رائج کیا گیا جس کے تحت تمام ووٹرز قومی اور صوبائی حلقوں میں بلا تخصیص مذہب امیدواروں کو ووٹ ڈال کر نمائندہ منتخب کرتے ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لئے متناسب نمائندگی کا طریقہ کا رائج کیا گیا جس کے تحت سیاسی جماعت کو کل حاصل شدہ سیٹوں کے تناسب سے اقلیتوں اور خواتین کی نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں جس کے لئے ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل ایک ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرواتی ہے اور الیکشن میں سیاسی جماعتیں جتنے فیصد نشستیں حاصل کرتی ہیں انکو اس تناسب سے مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں۔
متناسب نمائندگی کا طریقہ کار جمہوری اصولوں کی نفی:
جدید جمہوری اصولوں کے مطابق ووٹر یا کسی بھی گروہ کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں کے لئے چناؤ کا اختیار ووٹرز کو ہونا چاہئیے لیکن پاکستان میں رائج اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر رائج نظام اقلیتی ووٹرز سے چناؤ کا حق چھین کر سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اقلیتوں کے نمائندے کون کونسے ہوں گے لہٰذا یہ عمل کسی طور بھی الیکشن نہیں بلکہ سیلیکشن ہے اور سیاسی جماعتیں جس کو چاہتی ہیں اسکو الیکشن میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے سیلیکٹ کرکے پارلیمنٹ میں بٹھا دیتی ہیں یعنی اقلیتی ووٹرسے فیصلہ کرنے کا اختیار چھین کر سیاسی جماعتوں کر دے دیا گیا ہے۔
یہ جمہوریت ہے یا لاٹری سسٹم؟
یہ طریقہ کار کسی بھی طور جمہوری نہیں بلکہ ایک لاٹری سسٹم لگتا ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص جو کسی پارٹی قیادت کا منظور نظر ہوگا یا کوئی تگڑی سفارش ہوگی پیسے دیکر یا اثررسوخ استعمال کر کے مخصوص نشستوں پر پارٹی ٹکٹ حاصل کرلیتا ہے لہٰذا بنا ووٹ لئے اس کو سیٹ مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں میں بظاہر کوئی میرٹ نظر نہیں ہے اور ناہی میرٹ کا کوئی قانونی تقاضا ہے یہ ایک لاٹری ہے جسے نوازنا ہو سکے حق میں نکل آتی ہے۔ غیر منصفانہ اور میرٹ پر مبنی طریقہ کار نہ ہونے کی
وجہ سے ایسے لوگ بھی اقلیتوں کے نمائندے بن کر سامنے آتے ہیں جن کو متعلقہ علاقے کی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگ خود بھی نہیں جانتے اور نہ ہی سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ تجربہ ہوتا ہے۔
مخصوص نشست اقلیت کی اور اختیار اکثریت کا:
چونکہ متناسب نمائندگی کے طریقہ کار کے تحت اقلیتی نشستوں پر قومی اسمبلی میں پہنچنے والے نمائندے سیاسی جماعتوں کی مرضی سے آتے ہیں لہٰذابادی النظر میں نمائندگی بھی اپنی جماعتوں کی ہی کرتے ہیں ایسے بہت سے قصے سننے کو ملتے ہیں جب اقلیتی ووٹرز مخصوص نشستو ں پر بیٹھے افراد کے پاس اپنے مسائل لے کر گئے تو یہ سننے کو ملا کہ ہم کونسا آپ کے ووٹ لے کر آئے ہیں؟
یہ لمحہ فکریہ اور پاکستانی اقلیتوں کے ساتھ کھلم کھلا مذاق اور حقیقت میں سماجی اور سیاسی حیثیت میں کم تر سمجھے جانے کا ایک اور ثبوت ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں انکی نمائندگی کے لئے انکو مخصوص نشستیں دی گئیں لیکن اختیارات یہاں پہنچ کر بھی ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ فیصلے کا حق اور اختیار جمہوریت کا خاصہ ہے لیکن اقلیتوں کے کیس میں فیصلے کا حق اور اختیار کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔
اقلیتوں کی سیاسی نسل کشی:
متناسب نمائندگی کا طریقہ کار دراصل اقلیتوں کی سیاسی نسل کشی کے مترادف ہے چونکہ سیاسی جماعتوں کی مرضی سے مخصوص افراد اقلیتی نشستوں پر اپنے اثررسوخ و بار بار اسمبلیوں میں جا بیٹھتے ہیں کچھ اراکین نے تو 3اور 4بار ایم پی ایاور ایم این اے بننے کا مزہ لیا ہے اقلیتی نوجوانوں میں سیاست میں دلچسپی اور مایوسی بھی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس سے یہ تاثر اور زور بھی پکڑتا ہے کہ کیا فائدہ سیاست میں حصہ لینے کا کیونکہ اسمبلی میں تو پھر انہی لوگوں نے چلے جانا ہے جو پہلے سے موجود ہیں۔ لہٰذاسیاست سے دوری بتدریج اقلیتوں نوجوانوں کی سیاسی نسل کشی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
کیا یہ نظام جدید غلامی کی شکل ہے؟
بلاشبہ پاکستانی جمہوریت ابھی تک امیروں اور بلادست طبقے کے قبضے میں ہیں جو اقتدار بھی سنبھالتے ہیں اور فیصلے بھی انہیں کے اختیار میں ہیں۔
اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر رائج متناسب نمائندگی کا طریقہ کار میں اقلیتیں بھی اپنا فیصلہ خود کرنے میں با اختیار نہیں ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی غلام کو یہ کہا جائے کہ روٹی کپڑا تو تمہیں ملے گا لیکن اس میں تمہاری چوائس اور پسند شامل نہیں ہوگی بلکہ مالک یا کسی منشی کی مرضی ہوگی یعنی پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے نام پر نمائندگی تو ملے گی مگر نمائندہ ہماری (سیاسی جماعت) کی مرضی کا ہوگا اور تمہیں (اقلیتوں کو) فیصلہ ہر حال میں ماننا بھی ہوگا اس کے علاوہ دوسری کوئی چوائس نہیں، یہ نظام دراصل سو فیصداقلیتی ووٹرز کو مخصوص نشست کے چکر میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی اشرافیہ کا محتاج بن دیتا ہے مخصوص نشست پر اگر رکن اسمبلی بننا ہے تو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ترجیہی فہرست میں آنے کے لئے کسی سیاسی جماعت کے ترلے منتیں کرنے پڑیں گے کیونکہ مخصوص نشست پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی اسکے پاس کوئی آپشن ہی موجود نہیں۔ حالانکہ جنرل نشستوں پر حلقے کے الیکشن میں جس امیدوار کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ پہنچ جاتا ہے مگر یہ سہولت اقلیتوں کی سیٹوں پر میسر نہیں۔
اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر چناؤ منصفانہ کیسے ہو سکتا ہے؟
چونکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو پر کرنے کا طریقہ سراسر آمرانہ اورغیرمنصفانہ ہے لہٰذا اقلیتوں کی نمائندگی کو موثر بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں اور اقلیتی برادریوں کے سیاسی و سماجی رہنماؤں اور ووٹرز کے درمیاں مشاورت کی ضرورت ہے جس میں کچھ ماہرین کو شامل کر کے کوئی قابل عمل سکیم متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر سرکار نے مشاورت صرف اقلیتی نشستوں پر اسمبلیوں میں بیٹھے افراد سے کرنی ہے تو وہ بے فائدہ ہوگی۔ اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔
٭ سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے سیلیکشن سسٹم کا خاتمہ کریں۔
٭ قومی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لئے ڈویژن کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کر دی جائیں۔
٭ اقلیتی ووٹرز اپنے حلقے میں جنرل نشست پر ووٹ ڈالیں اور ڈویژن میں اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کو بھی ووٹ ڈالیں۔ ایک سکیم یہ ہے کہ
الیکشن کے دن اقلیتی اور اکثریتی ووٹرز کو دد بیلٹ پیپرز جاری کئے جائیں جس میں سبز ووٹ جنرل نشست پر حلقے کے امیدوار لے لئے ہوگا اور
وائٹ پیپر ڈویژن کے اقلیتی امیدوار کے لئے ہواور ڈویژن میں وائٹ پیپر جو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ لے وہ اقلیتی ایم این اے یا ایم پی
اے بن جائیگا۔
٭ اس طریقہ کا یا سکیم سے مخلوط طرز انتخاب بھی برقرار رہے گا اور اقلیتی نمائندہ بھی اپنے ڈویژن کے ووٹرز سے ووٹ لیکر منتخب ہوگا۔ اقلیتی
امیدوارڈویژن میں آزاد حیثیت میں یا کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بھی الیکشن لڑنے کے اہل ہونگے۔
٭ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی قابل عمل سکیم بحث کے لئے اور مشاورت کے ذریعے فائنل کی جاسکتی ہے تاہم پہلے
قدم کے طور پر ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں موجودہ نظام کو غیر جمہوری اور غیر منصفانہ قرار دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کریں۔
2024کے انتخابات موجودہ طریقہ کار کی بنیاد پر ہی ہونگے تا ہم اگلے انتخابات سے قبل اس کا خاتمہ ترجیحی بنیاد پر کرنا ہوگا ورنہ اقلیتوں میں پایا جانے والا غم و غصہ اور اضطراب مزید بڑھتا جائے گا۔