کہنے کو تو انسان اشرف المخلوقات ہے اور خدا نے انسان کو سب جانداروں کا سربراہ بھی مقرر کیا ہے۔لیکن ہم مبینہ طور پر اشرف الخلوقات نے طاقت اور عقل کے بل بوتے پر دنیا کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کی ابتدا ء ماضی کی اعلیٰ نسل کے انسانوں نے دنیا بلخصوس کمزور انسانوں کے مزید غلام یا پھر ذہنی غلام بنانے کے لیے متعارف کروائے تاکہ ان کے خلاف اٹھنے والے ہاتھ خود بخود اپنے بغلوں میں دبا دیے جائے اور غریب کمزور اس ظلم کو خدا کی مرضی گرداتنے ہوئے اپنے حاکموں کو انسان بلکہ اشرف الخلوقات سمجھیں۔
ایک لحاظ سے میں ہٹلر کے نظریہ سے سہمت بھی ہوں کہ سب انسان برابر نہیں ہیں۔جی ہاں سب انسانوں کا ایک ہی طریقہ سے پیداہونا اور مرجانا ایک جیسا ہی ہوتا ہے پھر اپنے اپنے عقیدہ اور طریقے سے اپنی لاشوں کی تدفین یا چتا جلانا بھی ایک جیسا ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی سب انسان ایک دوسرے کے لیے برابر نہیں۔اگر واقعی سب انسان برابر ہیں تو یہ ذمہ داری سٹیٹ یا ریاستی نظام ہے۔ورنہ سب اپنے وقت کے براہمن،سیدیا پھرلاوی ہیں۔جب خود زمین پر خدا کا نائب سمجھنے والے ریاست کی کانی ونڈ پر لبوں کو سیئے طاقت کی صفوں پر کھڑے رہیں تو کمزور کے ساتھ کون کھڑا ہوگا۔ پھر وہ فرانس کا پادری ہو یا یہودیہ کا فریسی کیا فرق پڑتاہے۔
یہ جو ظلم اب صنعت بن چکا ہے کرنے والے ور ظلم کے خلاف ڈرامے کرنے والے سب ایک تھالی سے کھاتے ہیں۔اس کے شعور کی ضرور ہے پیٹ کی بھوک شعور کی دشمن ہوتی ہے ضرورت اخلاقیا ت کو دفن کر دیتی ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں پاکستا ن میں یہی کچھ ایسا ہی ہورہاہے۔ لوگ جاگیرداروں کی صفوں میں جوک در جوک شامل رہے ہیں ایک دس دسمبر کو ملک کے فائیوسٹار ہوٹل انسانی حقوق کے تحفظ کے لے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں، دانش ور اپنی پنی حقایات اور شاعر نوحہ پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ مطلب سب کچھ ہونے کے باجود بھی، سب تدبیریں، قانون، آئین بنانے کے باوجود ظلم ختم ہونے کو نام ہی نہیں لے رہا تو کہیں تو گڑبڑ ہے۔ ملک کا بدنام پیر جو سینکڑوں بچیوں کو ثواب کی نام پر جبری مذہب تبدیل کروا چکا ہے اور وہی کسی نا کسی پروگرام میں صدر سیٹ پر بیٹھا ہو تو مظلوم کا انصاف پر سے یقین اُٹھ جائے گا بس یہی وجہ ہے کہ کمزور انسانوں پر ظلم بند نہیں ہورہا۔ایک نجی اینج ای او کے مطابق صرف 2023ء میں 10365 مقدمات عورت پر تشدد کے روپورٹ درج ہوئے یہ تو ایک فگر ہے مزید تحقیق سے معلوم ہو سکتا ہے انسانیت کا کیا حشر ہو رہا ہے۔ پھر پاکستان ہو، یا غزہ اوپر بیٹھے دماغ تو آج بھی فائیوسٹا ر ہوٹل میں کسی ہیٹر کے سامنے بیٹھے ہونگے اور مر رہے بیچارے غیریب لوگ۔ مطلب وہ لوگ جن کے نام پر انسانی حقوق کی مشطہرات ہوتے ہیں۔
جی اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہو سکتا سب ایک جیسے لیکن بس سوال پیدا ہوتا ہے سب کچھ ٹھیک کیوں نہیں ہو تاہے۔
وہ منیر نیازی کا شعر ہے۔ کج اُنج وی راہواں اوکھیاں سن، کج گل وچ غم دا طوق وی سی،
کج شہر دے لوک وی ظالم سن،تے کج سانوں مرن دا شوق وی ہے۔
جتنا ظلم غریب نے طاقت ور کی خوشامد میں اپنے ساتھیوں پر کیا اُتنا تو طاقت ور نے بھی نہیں کیا۔ کیوں ہم ایک دوسرے کا استحصال کیوں کر رہے اس بات کہ ہمیں خود بھی نہیں پتا اور نہ ہمیں اس بات کی خبر ہونے دی جارہی ہے۔ آپ زرا جڑانوالہ کے بلوائیوں سے پوچھیں کہ کیوں اقلیتی آبادیوں پر حملہ ہوئے تھے تو کسی کے پاس (دفاع ایمان) کوئی جواب نہیں ہوگا۔کسی کے پاس پارچنار کے ظلم کا کوئی جواب نہیں ہوگا سوائے(ثواب)آج اگر ہم نے خود کا دماغ استعمال کرنا شروع کردیا تو وہ طاقتوں کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ اور ایسا ہوا بھی ہے اس کی بڑی مثال، روس،فرانس،شکاگو موجود ہیں۔ طاقت جب اپنی درست سمت اختیار کرتی ہے تو بدلے میں تعمیری اشکال جنم لیتی ہے۔
ہمیں سب سے پہلے اپنے معاشی حالات بہتر کرنے ہونگے کیونکہ اگر ریاست دولتی ذرئع کی یکساں تقسیم میں ناکام رہے تو انفرادی کاوشیں خاندانی بہتر تبدیلی لا سکتی ہیں بھلے یہ بات خود غرضی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ بہتر معاشی حالات ہمیں وہ حقوق بھی دلوا سکتے ہیں جو ریاست دینے میں ناکام ہوجاتی ہے اور ہماری ریاست بدقسمتی ہے ناکام ریاست ہے کیونکہ شہری کی جان مال اور معاشی بہتری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر ریاست خود اپنے فیصلے کرے تو۔ جب ملک ادھار پر چل رہا ہوتو سیٹھ انسانی حقوق پر فائدے کو ترجیح پر رکھتا ہے۔ لہذا ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی پچھلی سات دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ ان سب خرافات کے باوجود دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے کہ ہم انسانوں کو انسانی حقو ق ملنے چاہییے۔ پاکستان پایندہ باد۔