دنیا میں کئی قسم کے طرز انتخاب نافذ العمل رہے ہیں جن میں سے ایک طریقہ ” جدا گانہ انتخاب” بھی ہے۔ جداگانہ انتخاب ایک دوسرے کو مذہبی، سیاسی، سماجی یاں کئی اور کئی لحاظ سے تفریق کی بناء ایک دوسرے کو علیحدہ یاں جدا کر کے الیکشن کروایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے وطن عزیز میں ایک دو مرتبہ مذہب کو بنیاد بنا کر قومی و صوبائی سطح پر ملک میں جداگانہ انتخاب کرواۓ گئے ہیں۔
یعنی مسلم ووٹرز صرف مسلم امیدواران کو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور اقلیتی ووٹرز صرف اقلیتی امیدواران کو ہی ووٹ ڈالیں گے۔ ہر مذہب والا اپنے مذہب کے مطابق اپنے نمائندے کو ووٹ ڈالے گا۔ مجھے لگتا ہے جداگانہ طرز انتخاب شہریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر کروائے جاتے ہیں۔ جتنے طرز کے بھی انتخاب موجود ہیں مجھے ان میں سب سے زیادہ گھٹیا ترین انتخاب جداگانہ طرز انتخاب لگتا ہے۔ یہ انسانوں کا تعلق ملک کے ساتھ ملکی شہریت سے نہیں رہنے دیتا بلکہ ہر شہری کا تعلق اس کے مذہب کے حوالے سے جوڑتا ہے۔ انسانوں کو مزہبی بنیاد بنا کر مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ انسانوں کے درمیان رواداری اور بھائی چارے کی نفی کرتے ہوۓ مذہبی تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ یہ نظام انتخاب مذہبی تمسخر اور انسانی تذلیل ہے۔ اگر انسانی مساوات اور انسانی عظمت کی بات کی جاۓ تو ایک ہی ملک کے سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں اور بلا امتیاز رنگ نسل و مذہب سب کو مل جل کر اپنے ملک کے لیے بہتر نمائندگان کا انتخاب کرنا چچاہیے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ ایک مذہبی جنونی معاشرے میں جہاں ملک کا سرکاری مذہب ہو وہاں اکثریت مذہبی تعصب کی بنا پر یہ کہے کہ ہمارے انتخابات دوسرے مذاہب کے انتخابات سے علحیدہ کر دیے جائیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہاں اگر اقلیتوں کی طرف سے یہ نعرہ بلند کیا جاۓ کہ ہمیں اکثریت سے جدا کر دیا جاۓ یعنی ہماری پہچان اکثریت سے علحیدہ ہو اور اکثریت کی پہچان ہم سے علیحدہ ہو تو یہ اچنبھے کی بات ہے۔ اگر اکثریت یہ مطالبہ کرے کہ ہم اکثریت میں ہیں لہذا ہمیں اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ یاں وافر حقوق ملنے چاہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہاں اگر اقلیتوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاے کہ ہم چونکہ تعداد میں کم اور ہمارا مذہب اکثریت سے جدا ہے
لہذا ہمیں اکثریت کے مقابلے میں کم بلکہ کمتر حقوق ملنے چاہیں تو یہ اچنبھے کی بات ہے۔ اگر اکثریت یہ کہے کہ چونکہ ہم اس ملک کی تعداد میں زیادہ ہیں لہذا ہمارے مذہب کو افضل ترین سمجھا جاۓ اور ہمارے ہم مذہب کا مقام و رتبہ اعلی و افضل ہونا چاہیے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہاں اگر اقلیتوں کی طرف سے یہ ڈیمانڈ کی جاۓ کہ چونکہ ہمارے ملک میں ہمارے مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں جو اکثریتی مذہب کا ہے اور ہمارے مذہب کو کم تر بلکہ کمتر ترین تصور کیا جاتا ہے لہذا ہمیں اکثریت سے بلکل جدا کر دیا جاۓ۔ ہمیں اکتریت کے برابر نہ سمجھا جاۓ۔ وہ اپنے نمائندگان کا خود فیصلہ کریں اور ہم اپنے نمائندگان کا خود فیصلہ کریں۔ ان کے نمائندگان صرف ان کی بات کریں اور ہمارے نمائندگان ہماری بات کریں۔
کیا یہ عجیب سی سیاسی صورتحال نہیں ہے کہ مسلمانوں کے علحیدہ نمائیندے ہوں مسیحیوں کے علحیدہ ہندؤں کے علحیدہ اور دیگر مذاہب کے علحیدہ نمائیندے ہوں اور سب اپنے اپنے مذہب اور مذہبی افراد کی باتیں کریں۔ اس طرح تو قومی اور صوبائی اسمبلی مذہبوں کی آواز میں گونجتا رہے گا اور وہاں قومی مسائل کی بجاۓ مذہبی مسائل پر زیادہ بحث ہوگی۔ جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے اپنے دین کے لیے کھینچا تانی ہو گی تو ملک میں مذہبی جنونیت عروج پر پہنچ جاۓ گی۔ ناصرف نمائیندوں میں بلکہ عوام میں بھی مذہبی شدت پسندی، مذہبی نفرت اور تعصب فروغ پاۓ گا اور اس ملک میں غیر اعلانیہ مذہبی جنگ شروع ہو جاۓ گی۔
اگر مسیحی قوم ان تمام خطرات کو برداشت کر سکتی ہے تو اپنی سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور امن و سکون کی تباہی کے لیے جداگانہ انتخاب کا نعرہ ضرور لگائیے۔ بہت سے مسیحی اس متروک زمانہ انتخابی طریقہ کار کا مطالبہ کرتے بھی ہیں اور کچھ مسیحی سیاست میں دلچسپی لینے والے دانشوران کا کہنا ہے کہ ہمیں جداگانہ الیکشن ہی چاہیے لیکن پورے ملک میں ہماری حلقہ بندیاں قائم کی جائیں۔ پھر ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اپنی منزل پا لی، ہم نے اپنا گول حاصل کر لیا اور ہم سمجھیں گے کہ ہم نے مسیحی قوم کو تازہ حیات بخش دی ہے۔
میری ان دانشوروں سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ رحم کیجیے مسیحی قوم کو گمراہی کی طرف نہ لے جاہیے، بلکہ انہیں مشورہ دیجیے کہ ہم نے پاکستانی قوم کو مذہبی گروہوں میں تقسیم نہیں ہونے دینگے۔ ہم جتنا زور شور اور ولولہ جداگانہ انتخاب کی طرف لگاتے ہیں ہم اس سے سو گنا زیادہ زور و شور مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی طرف لگائیں۔ ہم اس ملک سے مذہبی نفرت کو مٹائیں اور بلا امتیاز رنگ نسل و مذہب معاشرہ قائم کریں گے تاکہ مسیحی غیر مسیحیوں کو خوشی کے ساتھ قابلیت اور اوصاف کی بنیاد پر ووٹ دیں اور غیر مسیحی دل کی صداقت اور ملکی ترقی کے لیے درست فیصلہ کرتے ہوۓ قابل اور ووٹ کے درست حقدار کو اپنا ووٹ دیں خواہ وہ مسلم ہو مسیحی ہو یاں ہندو ہو۔