میرا ہمشیہ سے خیال رہا ہے، کہ سول سوسائٹی کے اکثریت پاکستان کے پسے ہوئے طبقات خصوصاً اقلیتوں کے مسائل کو اتنا ہی سمجھتے ہیں، جتنا گرجے کے زیرِ انتظام وتربیت یافتہ این جی اوز والے انھیں بتاتے ہیں۔میرے اس پرسپشن کے شواہد اکثر ملتے رہتے ہیں۔۔موجودہ دوہری نمائندگی کو اقلیتوں کی متعلقہ برادریوں کے ووٹ سے مشروط کرنے کی اگاہی مہم میں تو ان میں سے ایک آدھ پہلے کھل کر بحث کرتے رہے۔ اب جب دلیلیں نہیں رہی ۔ویسےماضی میں بھی انکی سب سے بڑی دلیل یہ تھی ۔۔کہ الیکشن کمیشن کا کام بڑھ جائے گا ( الیکشن کمیشن کے وڈھے گامے) اب انھوں نے درپردہ مخالفت شروع کردی ہے ۔۔سب سے پہلے جہاں جہاں دوہرے ووٹ کی مہم چلاتا کوئی بندہ نظر آیا وسائل ہیں۔ اس کے پاس پہنچتے ہیں۔۔ اسے علاقائی عہدہ دیا۔جس لیول کا بندہ ہو ویسے ہی لبھایا یاد رہے ۔۔ ۔ انگریزی پرنٹ و میڈیا کے تربیت یافتہ اینکرز سے ان کی گاڑھی چھنتی ہے ۔۔ اس اثر کے زریعے بھی صحیح بات و حالات سامنے نہیں آنے دیتے ۔۔ الیکشن کے سب بڑے جغادری احمد و باری بھی انھی کی زبان بولتے ہیں ۔۔ آج صبح سرون کمار بھیل سے بات ہوئی جو پچھلے کئی سالوں سے دوہرے ووٹ کی آگاہی مہم چلارہے تھے آج کل ذرا ان کی ترجیحات بدلی ہوئی ہیں ۔لیکن ظاہر ہے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے پاکستان کے معروضی حالات میں دوہرے ووٹ کے علاؤہ بقاء و ترقی کا کوئی چارہ نہیں اس لئے وہ اب درپردہ اس کی مہم چلاتے ہیں۔اج مجھے بتا رہے تھے کے میں نے مینزہ یا منزہ جہانگیر سے میں نے دوہرے ووٹ سے بات کی تو پہلے تو بحث کرتی رہی آخر میں زچ ہو کر بولی کہ کے مسیحو کے سب سے پڑھے لکھے(،امیر، سمجھدار )این جی او والے صاحب بھی یہ نہیں چاہتے۔ امیر سمجھدار میں نے لگایا ہے ۔۔کیونکہ این جی اوز والا پڑھا لکھا ہوگا تو امیر وسمجھدار تو ہوگا ہی ۔۔۔تو قارئین یہ ہے نوے لاکھ لوگوں کی اجتماعی دانش کی اوقات قومی میڈیا کے اینکروں اور سیکولر آزاد و روشن خیال ،سول سوسائٹی کی نظر میں۔۔
ان این جی او والوں کی اس تین نکاتی مطالبے کی مخالفت کی پہلی وجہ تو یہ ہے، کہ انھوں نے چرچ کے زیرِ انتظام واہتمام جداگانہ طریقہ انتحاب جیسے غیر جمہوری غیر انسانی ، انسانوں کو شودر و اچھوت بنانے والے نظام سے جان چھڑائی تھی ۔اسکے کے لئے وہ تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔۔(لیکن بھائی لوگوں موجودہ نظام چلا ہے تو اسکی خامی بھی سامنے آئی ہے )۔۔دوسری وجہ بڑی شرم ناک ہے ۔کہ یہ مطالبہ و لالحہ عمل پاکستان کی پسی ہوئی مذہبی اقلیتوں کے 80فیصد دیگر سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ اس سے یوسی وارڈ سے قومی اسمبلی کے حلقوں تک پسے ہوئے مسیحو و پسے ہوئے ہندؤں و دیگر اقلیتی شہریوں کے مسائل کے حل کا خؤد کار نظام قائم ہوجائے گا ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ اگر یہ مسائل حل کرنے کا ملک کے چپے چپے میں خودکار نظام بحال ہوجاتا ہے۔ تو محرومیوں کے ان سوداگروں کے کاروبار و روزگار بند ہونے کا خدشہ ہے۔ تو بھائی پہلی بات رازاق اللہ تعالیٰ ہیں ۔دوسری بات ظاہر آپ میں سے اکثر اب عمر کے ریٹائر منٹ کے حصّے میں ہیں۔ اسی کاروبار سے بچے بھی ڈونزرز کے دیسوں میں آپ نے اچھے پڑھا لئے ہیں ۔۔ لازمی نہیں وہ یہ ہی کام کریں ۔تیسری اور آخری بات یہ مسائل اتنی جلدی حل نہیں ہونے والے صرفِ خؤد کار نظام چلنا شروع ہو گا برصغیری معاشروں میں ایسے مسائل پھوٹتے رہتے ہیں لہٰذا مخالفت چھوڑریں اپنے دیگر کاموں پر توجہ دیں آخر میں ہوٹلوں میں ان کی دعوتوں پر جانے والوں سے گزارش ہے ان سے سوال کریں آپ اس جدو جہد میں شامل کیوں نہیں ہوتے۔۔یہ سوال کرنے کے لئے اس پورے مسئلے کے ماضی حال کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ اسکے لئے آدھا گھنٹہ پڑھیں آپ کو اندازہ ہو کے موجودہ نظام میں کس طرح ہندو کمیونٹی کا سب سے زیادہ بقول ان کے 90فیصد آبادی رکھنے والا شیڈول کاسٹ گروہ کس طرح اس نظام میں نمائندگی ہی حاصل نہیں کر پاتا اور کیسے وہ بیچارے 1909سے جدوجہد کر رہےہیں ۔۔ اور مسحیو کے کمزور طبقات میں سے جو خوشامد و چ چالاکیوں سے اس نظام میں گھس گئے وہ کیسے دوسروں کے لئے دیوار بنے بیٹھے ہیں آخر میں پڑھے لکھے مسیحی نوجوانوں سے اپیل اس مسلئے کو جان کر اگر متفق ہوں تو ان محرومیوں کے سوداگروں کے خریداروں کو لکھوں بھائی ہمیں ہمارے مسائل کے حل کا خؤد کار نظام ترتیب دینے میں مدد کرو آسکے لئے باخبر ہو جاؤ ورنہ
بقول استاد دامن سمجھ دار نہ سمجھوں کو کیسے لوٹتے ہیں ۔۔
جاگن والیاں لٹیاں رج کے وے
سوئے تسی وی او تے سوئے اسی وی آں
اے اکھاں دی لالیاں پئیاں دس دیاں نے
روئے تسی وی او تے روئے اسی وی آں