کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوۓ صحافی کے ذاتی جذبات اور نفعے نقصان سے دور رہ کر انتہائی غیر جانبداری سے بات کرنی چاہیے تاکہ اصل مسائل اور ان کا تدارک درست سمت میں کیا جاۓ۔ ہم جانتے ہیں کہ جب میاں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا تو ان کے سیاسی مخالفین نےاس منصوبے کے آغاز میں مخالفت کے وہ تیر چلاۓ کہ بس ملکی سیاست کا سارا محور میٹرو بس ہی بن کر رہ گئی۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پنجاب کے علاؤہ دوسرے صوبوں نے بھی یہی منصوبہ شروع کر دیا اور انتہائی کثیر رقم خرچ کر کے اپنے صوبے میں مکمل کیا اور اسے اپنی کارکردگی کی مثال بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میٹرو بس منصوبہ تو بہت اچھا ہے ہزاروں لاکھوں لوگ روزانہ اس پر سفر کرتے اور اپنے اپنے کام پر جانے کے لیے کم کرایہ اور کم وقت لگاتے ہوۓ اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ میٹرو بس کا سفر ویگنوں پر سفر کرنے سے زیادہ آرام دہ اور باعزت بھی ہے۔ بیشک میٹرو بس کے بہت سے فوائد ہیں لیکن چند ایک نقصانات بھی برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ اگر حکومت وقت ان مسائل اور نقصانات کو دور کرنے کی کوشش کرے تو عوام کو بہت بڑی سہولت مہیا کی جا سکتی ہی۔
لاہور میں میٹرو بس شاہدرہ سے شروع کر کے گجومتہ چلائی گئی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اوور ہیڈ ہے اور تقریباً چھ سات میل کا سفر آن گراؤنڈ ہے جو ایف سی کالج والی نہر سے شروع ہو کر گجومتہ تک ہے۔ اس آن گراؤنڈ حصے کے نقصانات کو دور کرنا حکومت کی ذمےداری بنتی ہے۔ یہ درست ہے ایف سی کالج نہر سے لیکر گجومتہ کا سفر سگنل فری بنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں تین مقامات پر سڑک کراسنگ بنائی گئی ہے جو سڑک کراس کرنے والی ہر طرح ٹریفک کے لیے رکھی گئی ہے۔اول کلمہ چوک، دوئم گلاب دیوی ہسپتال اور سوئم نشتر کالونی۔ کلمہ چوک اور گلاب دیوی کی کراسنگ کا بہترین انتظام کیا گیا ہے بلکہ گلاب دیوی ہسپتال پر انڈر گراؤنڈ بنا دیا گیا ہے اور آن گراؤنڈ بھی سڑک کراس کی جا سکتی ہے مگر نشتر کالونی کی کراسنگ عوام کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے وجہ یہ ہے کہ چونگی امرسدھو سے لے کر گجومتہ تک جو کہ تقریباً چار کلومیٹر کا سفر بنتا ہے اس میں صرف ایک ہی روڈ کراسنگ رکھی گئی ہے۔ اٹاری سروبا سے لیکر نشتر کالونی، یوحنا آباد ، دولو خورد و کلاں کی عوام سڑک کراس کرنے کے لیے یہی کراسنگ استعمال کرتی ہے۔ یہاں دونوں اطراف سے ہزاروں کاریں، بسیں اور لاکھوں موٹرسائیکلیں گزرتی ہیں۔ کیونکہ یہ کراسنگ دوطرفہ ہے اس لیے آنے جانے والی ٹریفک آپس میں الجھ جاتی ہے اور ہر روز گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے، جس کی وجہ سے ذہنی کوفت اور وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ اس خاص کراسنگ پر ہر روز حادثات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مار پیٹ اور لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہے۔ یہ کراسنگ نہ صرف عوام کے لیے بلکہ ٹریفک پولیس کے لیے بھی سر دردی بنی ہوئی ہے۔ نگران حکومت کا شکریہ کہ اس نے عوام کی اس جان لیوا مصیبت کو محسوس کرتے ہوۓ اس مسلے کا حل یہ نکالا ہے کہ مین روڈ کو چھوٹا کر کے سڑک کی دونوں اطراف سڑک کے بیچ ایک دیوار بنانی شروع کر دی ہے اور حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اگر سڑک کے دونوں طرف سائیڈ روڈ بن جاۓ تو عوام آسانی سے اپنی گاڑی اور موٹر سائیکل لے کر وہاں سے گزر سکیں گے۔ میں حکومت کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ سڑک کے بیچ میں دیوار بنانے سے ٹریفک کا مسلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اور بگڑ جاۓ گا۔ اول تو مین روڈ چھوٹی ہو جاۓ گی جس سے سیدھی جانے والی ٹریفک کو بھی ہر وقت پریشانی رہے گی اور دوئم حکومت عوام کو خود یہ سہولت دے رہی ہے کہ آپ الٹے ہاتھ بھی ڈرائیو کر سکتے ہیں۔ سوئم سائیڈ روڈ چھوٹی ہونے کی وجہ سے ہر وقت ٹریفک جام رہے گی اور حادثات ہونے کا خطرہ بڑھ جاۓ گا۔
حکومت سے التماس ہے کہ عوام کے لیے اور بڑھی مصیبت نہ کھڑی کریں نہ عوام کو جھوٹی تسلی دیں کے ہم آپ کا سنگین مسلہ حل کر رہے ہیں اور نا ہی سرکاری خزانے کا غلط استعمال کریں۔ جو درست حل ہے صرف اسے ہی اپنایا جاۓ۔ اور درست حل یہ ہے کہ اس روڈ کراسنگ پر یاں تو اوور ہیڈ برج بنایا جاۓ یاں انڈر پاس بنایا جاۓ۔ یہ مسلہ تب ہی حل ہو گا ورنہ یہ مشکل جون کی توں رہے گی اور عوام کے لیے مستقل سر دردی بنی رہے گی۔