یہ کہانی ایک ایسی حوصلہ مند لڑکی کی ہے جس نے دنیا کو بتا دیا کہ اگر ارادے پختہ ہوں اور یقین خدا پر ہو تو طوفانوں کو بھی توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے ”مہنے پار لگاتے ہیں“ ۔ وہ تیرہ سال کی تھی تو سکول میں ٹیچر کے ناروا سلوک نے سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے ویسے سکولوں میں بالخصوص سرکاری سکولوں میں غریب بچوں یا پھر غیر مسلم بچوں کے ساتھ مذہبی تعصب ہونا کوئی نئی بات نہیں۔
پاکستان میں خاص کر پنجاب میں شاید ہی کہیں ایسا ہو کہ کسی سکول میں غیر مسلم بچوں کے ساتھ برا سلوک نہ ہوا ہو۔ یعنی غریب بچہ اگر ساتھ غیر مسلم بھی ہو تو اسے دوہرے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں بھی دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے کچھ لوگ تو ایسی صورت حال کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے ساتھ ایسا سلوک ہونے پر بتانا پسند نہیں کرتے بہرحال مسائل تو ہیں جس کی اگر والدین رپورٹ کریں تو والدین کو سکول یا ٹیچر کی طرف مزید ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کبھی کبھی تو ٹیچر والدین کے سامنے انکار کر دینے کے بعد بچے سے ذاتی بیر رکھنا شروع کر دیتے ہیں یہی وجہ کے بے شمار دفعہ والدین ایسے سلوک کو رپورٹ نہیں کر پاتے کہ کہیں ان کے بچے کا مستقبل خراب نہ ہو جائے لہذا ایسے صورت حال پر کچھ بچے تو سکول چھوڑ ہی دیتے ہیں اور کچھ سکول بدل لیتے ہیں۔ ویسے ہمارے ملک میں سکول چھوڑنے کی وجوہات میں سے ایک بچوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد بھی ہے۔
سسٹر زیف انہی ذہنی اور جسمانی تشدد کی شکار بچوں میں سے ایک ہے جس نے پہلی آپشن منتخب کی اور سکول چھوڑ دیا اور دل میں یہ تہیہ کر لیا کے اب وہ سکول میں نہیں بلکہ گھر پر ہی اپنی تعلیم کو جاری رکھے گی۔ اس طرح کے کردار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اگر ارادہ کر لیں تو دنیا بدل دیتے ہیں اور ایسا ہی سسٹر زیف نے کیا اور تیرا سال کی عمر میں گھر سے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کی ٹھان لی مزید دلچسپ بات یہ ہوئی کہ نہ صرف اس نے خود پڑھنا بلکہ دوسروں کو بھی گھر پر ہی پڑھانا شروع کر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کسی کو کامیاب نہیں ہونے دیتی اور نہ ہی کامیاب ہونے سے روک سکی ہے لیکن جب کوئی کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے اپنے کندھوں پر بٹھا کر رکھتی ہے۔
پہلے پہل سسٹر زیف کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا گھر والوں نے اور دوسرے لوگوں نے کوئی زیادہ پذیرائی نہیں کی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ آتے گئے اور وہ ون مین آرمی ایک ادارے کی شکل اختیار کرتی گئی۔ سسٹر زیف نے پرائیویٹ میٹرک ایف اے کیا گھر سے ہی تیاری کی اور بی اے کر لیا۔ سکول کے دوران ہی پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پالیٹیکل سائنس اور ہسٹری کیا۔
زبردست بات تو یہ ہے کہ اپنے نامساعد حالات میں سلائی کڑھائی کا کام کرتی اور جو پیسے ملتے اس سے بچوں کے سکول میں لگا دیتی۔ جنون کا اندازہ کر لیں کے خود بھوک کاٹ کر دوسرے بچوں کی تعلیم پر ایک سکول کے طور پر خرچ کرتی رہی پھر کچھ دیر بعد ایک ادارہ زفنیا ایجوکیشن اینڈوومن ایمپاورمنٹ فاؤنڈیشن تشکیل دیا جس میں مستحق بچوں کو فری تعلیم اور تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور بچیوں کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی تعلیم کا بھی انتظام کیا۔
سسٹر زیف نے ثابت کر دیا کے اگر آپ چاہو تو زمانہ بدل سکتے ہو اور سچی لگن اور محنت کا جذبہ آپ کو کامیابیوں کی اس معراج پر لے جاتا ہے جس کے بارے میں آپ نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان جہاں ایسے سیاسی اور معاشی مشکلات میں گھیرا ہو اور ہر طرف مایوسی اور بد امنی پھیلی ہو تو وہاں سسٹر زیف جیسے لوگ ٹھنڈی ہوا کو جھونکا ہوتے ہیں۔ سسٹر زیف کو پھر پاکستان سمیت دنیا نے تسلیم کیا اور یونیسکو نے فرانس میں بلا کر انعام دیا جس سے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔
اس مقابلہ میں دنیا سے کوئی ستر ہزار لوگوں نے اپلائی کیا ہوا تھا جس پھر آگے بیس لوگ منتخب ہوئے اور پھر ان بیس میں سے آٹھ جو سپر سلیکشن میں آئے۔ سسٹر زیف دنیا کے ان آٹھ خوش قسمت لوگوں میں شمار ہوتا ہے جن کو دنیا کی بیسٹ ٹیچر کا انتخاب ہوا ہے اور یونیسکو کی طرف سے گلوبل ٹیچر ایوارڈ دیا گیا جس کے ساتھ دس لاکھ ڈالر کیش انعام بھی دیا گیا۔ چوبیس کروڑ میں ایسے لوگوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جنہوں نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ہے۔
سسٹر زیف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا! ”میرا یہ خواب ہے کہ پاکستان میں استاد ایسے ہونے چاہئیں جن کو دیکھ بچے کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے اور پاکستان میں درس گاہ بچے کے لیے جیل نہیں بلکہ گھر جیسا لگے۔ یعنی میں اپنے سکول میں بچوں کو فالوور نہیں تھنکر بنانا پسند کرتی ہوں تاکہ وہ سوال پوچھتے ہوئے ہچکچائیں نہیں“ ہمارے اس رٹو طوطے نظام نے پہلے ہی ہماری تعلیمی اور تحقیقی شبہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ ذہن اگر پر امید اور تر و تازہ ہوں تو علم کی فصل بہترین ہوتی ہے۔ سسٹر زیف نے اپنے جوش، ولولہ اور جنون سے دنیا کو بتایا ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی سے کم نہیں ایک دفعہ پھر سسٹر زیف کو گلوبل ٹیچر ایوارڈ جیتنے پر بہت بہت مبارکباد۔ پاکستان پائندہ باد۔