…مذہبی شدت پسندی ہمیں لے ڈوبے گئی

 

تحریر: عوبید بھٹی

قرآن پاک کی بے حرمتی الزام، مشتعل عوام کا ملزمان کےگھر پرحملہ، توڑپھوڑ گھریلو اشیاء نزرآتش
مشتعل شہریوں نے ملزمان کے گھر کے شیشے توڑ دیے اور ملحقہ کارخانہ کے سامان کو آگ لگا دی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق نزیر مسیح ولد صادق مسیح گل پر محمد جہانگیر ولد جمال دین کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الصبح تقریباً 7بجے شور شرابہ سنانی دیا ،بمع چشم دید گواہوں محمد عرفان ولد ایوب گوندل ھمراہ محمد اکرم ولد عبدالسلام کے مطابق نزیر مسیح مقدس اوراق کو موٹر کے جنگلہ پر رکھ کر جلا رھا تھا۔ دیکھا کہ نزیر مسیح بھاگ کر گھر میں چھپ گیا ہے مذکورہ محمد اکرم نے وقوعہ کے مطلق 15پر کال کرکے اطلاع دی۔ علاقہ مکین وشہری مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام کے بعد مشتعل ہوگئے۔
پولیس نے مجاہد کالونی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں ایک مسیحی شخص پر تشدد حملے کے سلسلے میں 44 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے۔ پولیس نے ہفتہ کے روز مشتعل ہجوم سے اس شخص اور دو مسیحی خاندانوں کو بچالیا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب رہائشیوں کو بجلی کے کھمبے اور مسیحی خاندانوں کے گھروں کے قریب قرآن پاک کے جلے ہوئے صفحات ملے۔ (ابتدائی اطلاعات کے مطابق) واقعے کے فورا بعد درج کی گئی ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 324 (اقدام قتل)، 186 (سرکاری اہلکاروں کو روکنا)، 353 (سرکاری اہلکار پر حملہ کرنا)، 436 (گھر کو تباہ کرنے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرنا)، 440 (موت یا زخمی کرنے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرنا) شامل ہیں۔ اور 149 (غیر قانونی اجتماع) ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کی کارروائیاں) اور 11 ڈبلیو ڈبلیو (ہجومی تشدد) کے تحت الزامات بھی شامل ہیں۔
ہجوم کا بذات خود ،کسی بھی شخص پر حملہ کرنا زدوکوب کرنا بغیر تحقیق کے تشدد کرنا قانون جرم ہے۔
مشتعل شہریوں نے ملزمان کے گھروں کے شیشے توڑ دیے اور سامان کو آگ لگا دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر مشتعل افراد کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا اور ایک خاندان کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام پر منتقل کردیا جن پر الزام عائد کیا جا رہا تھا ڈی پی او سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران بھی موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کیں مگر وہ لوگوں کو قابو نہ کر سکے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ نامعلوم افراد نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی جس پر لوگ مشتعل ہوگئے تھے اور ہنگامہ آرائی کی۔ امن کمیٹی کے اراکین بھی علاقے میں پہنچ گئے ہیں اور مظاہرین کو پرامن رہنے کی تلقین کی کہ اس سارے معاملے کو صبر وتحمل کے ساتھ مل جل کر حل کریں گے مگر ایسا ہونہ سکا ۔
“کیا مذہبی جنونیت کے ذریعے سے اقلیتیوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ،،
پولیس نے موقع پر پہنچ کر مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا اور خاندان کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام پر منتقل کردیا جن پر الزام عائد کیا جا رہا تھا۔ ڈی پی او سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران بھی موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ نامعلوم افراد نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی جس پر لوگ مشتعل ہوگئے اور ہنگامہ آرائی کی۔امن کمیٹی کے اراکین بھی علاقے میں پہنچ گئے ہیں اور مظاہرین کو پرامن رہنے کی تلقین کی جو بے سود ثابت ہوئی۔
ایسے واقعات کے نتیجے میں افسوس ناک پہلو یہ سامنے آتا ہے۔ کہ پاکستان میں مذہب کا نام لے، کسی بھی تحقیق، تفتیش کے بغیر بلا روک ٹوک اقلیتوں کو مارا پیٹا، تباہ و برباد بلکہ قتل تک کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اصلاح احوال کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
سرگودھا مجاہد کالونی میں ہونے والا واقعہ انتہائی سوگوار ہے اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،
کسی شخص کو بھی حق نہیں ہے وہ کسی کے مذہب، فرقہ، یا مقدس کتابوں کی توہین کرے،
سرگودھا مجاہد کالونی میں ہونے والے توہین مذہب واقعہ کا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو فوری سرگودھا پہنچنے کہ احکامات دئیے
اس واقعہ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ کردیا گیا ہے جوکہ تحقیقات کر رہے ہیں اہلیان سرگودھا سے درد مندانہ اپیل ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کریں اور امن امان کی فضاء کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں،
علماء کو بین المذاھب ہم آہنگی کو فروغ کیلئے یکجا ہونا ھوگا
علاقے مکیین بتاتے ہیں کہ جس شخص پر توہین مذہب کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی طرح کی مذہبی فرقہ واریت کا حامل نہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے واقعات تسلسل سے ہونا لمحہ فکریہ ہے،اقلیتوں کیلئے جینا اجیرن کردیا گیا ہے اس سے پہلے بھی ماضی میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔جن کے قصورواروں کو قرار واقعی سزادی جاتی تو آیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوتے۔سانحہ سرگودھا نے گزشتہ سال جڑانوالہ کے واقعہ کی یاد تازہ کردی،حالانکہ گزشتہ سال جڑانوالہ واقعہ کے بعد مذہبی رہنماوں اور حاکم اعلیٰ کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اقلیتیوں کے تحفظ وحقوق کو یقینی بنایا جائے گا۔
“جب جاگو تبھی سویرا”
گزشتہ تین دہائیوں سے جب بھی کوئی ایسا سانحہ رونما ہوا ،اسکے پس پردہ حقائق کچھ آور نکلے،جن میں ذاتی رنجشیں ،لین دین کے معاملات وغیرہ سرفہرست ہیں آخرکار بات سوچنے کی ہے کہ،ایسے واقعات مسیحیوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں۔ مسیحی ایسے مواقع کیوں فراہم کرتے ہیں کہ انہیں ایسے شدت پسندانہ سانحے کرنے کا موقع ملے ،ایسے واقعات ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں اس کے علاؤہ علاقے میں کوئی بھی شخص کسی کو واقعہ کے اصل حقائق کا پتہ نہیں۔
بین المذاھب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے مذہبی رہنماء اور سیاسی قیادت کو مؤثر کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے
ایس ایچ او شاہد اقبال کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق لاٹھیوں، پتھروں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ہجوم متاثرہ کے گھر کے باہر جمع ہوگیا۔ پولیس، سرگودھا امن کمیٹی اور دیگر رہائشیوں کی جانب سے ہجوم کو پرسکون کرنے کی کوششوں کے باوجود صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی تھی۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہجوم نے قریبی جوتے کی فیکٹری کو آگ لگا دی اور ملحقہ چھتوں سے متاثرہ کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ انہوں نے مبینہ طور پر بجلی کے میٹرز اور آؤٹ ڈور ایئر کنڈیشننگ یونٹس کو آگ لگانے سے پہلے تباہ کردیا۔ پولیس افسران اس شخص کو جلتے ہوئے گھر سے بچانے میں کامیاب رہے ، لیکن جیسے ہی وہ اسے باہر لے آئے ، ہجوم نے حملہ کیا ، پتھر پھینکے اور لاٹھیوں سے اس کو مارا، جس سے مسیحی شخص شدید زخمی ہوگیا۔ (بعد ازاں سکیورٹی اہلکار کے بروقت کارروائی سے فوری طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا) ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہجوم میں شامل خواتین تشدد کیلئے بھڑکا رہی تھیں۔ ملزم کے بھتیجے رضوان یونس گل نے ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے چچا کی حالت مستحکم ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ کچھ دن پہلے ایک سخت گیر مذہبی جماعت کے ایک کارکن کا اپنے کزن سے ٹکراؤ ہوا تھا جسے بات چیت کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا۔ گل نے بے حرمتی کے الزامات سے انکار کیا۔
سینیئر صحافی و لکھاری مزمل سہروری نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ حساس ادارے کی اطلاعات کے مطابق ایک مخصوص گروہ فرقہ ورانہ کارروائیوں میں ملوث ہے جنکا کام ہی اقلیتیوں پر توہین مذہب کے مقدمات درج کروانا ہے۔ اور یہ گروہ مختلف اضلاع میں کام کر رہا ہے ۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر محمود اشرفی نے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سخت سزادی جائے گی اور ان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا ۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی سرگودھا مجاہد کالونی میں نزیر مسیح کے گھر آمد۔ گھر کا اور جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور ضلعی انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں ۔سانحہ کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ سرگودھا کے حالات پرامن اور مکمل کنٹرول میں ہیں 2 ہزار سے زائد پولیس کے جوان یہاں پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں
ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ جو لوگ اپنے گھروں کو تالے لگا کر چلے گئے ہیں وہ بھی اپنے گھروں کو واپس آئیں اور صبح اپنے گرجا گھروں میں عبادت کریں۔ اور معمول کی زندگی گزاریں پولیس ان کی حفاظت کیل موجود ہے۔ پولیس کے جوانوں کی بہادری کی وجہ سے آج سرگودھا بہت بڑے سانحہ سے بچ گیا وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی سرگودھا پولیس نے فوری موقع پر پہنچ کر حالات پر قابو پا لیا ورنہ آج بہت بڑے پیمانے پر فسادات ہونے کا اندیشہ تھا مشتعل افراد کے پتھراؤ سے پولیس کے افسران اور جوان کافی تعداد میں زخمی بھی ہوئے مگر انھوں نے اپنی ڈیوٹی نہیں چھوڑی پولیس نے اپنی جان داؤ پر لگا کر فیملیز اور اس کمیونٹی کے لوگوں کو ریسکیو کر کے ہجوم سے باحفاظت نکالا پولیس کی بروقت کاروائی کی بدولت سرگودھا بڑے سانحہ سے بچ گیا، خدا کا شکر ہے کے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا سرگودھا کے حالات پرامن اور مکمل کنٹرول میں ہیں ۔
سرگودھا کی ضلعی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، علماء کرام اور مسیحی مذہبی و سیاسی سماجی رہنماوں نے مل کر عوام میں اشتعال کم کرنے اور امن و امان کی فضاء کو قائم رکھنے میں سرخ اپنا اہم کردار ادا کیا ہے، مذہبی رہنماوں نے کہا کہ اُمید کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور ملزمان کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائےگی۔ تاکہ دوبارہ کسی کو ایسی جرات نہ ہو۔
بیرون ممالک (دیارِغیر)میں جا کر جو لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں واپس آہیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں،وہ لوگ واپس بھی آتے ہیں اپنا کاروبار کریں تاکہ ان کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کا پہیہ بھی چلے ۔حالانکہ بیرون ممالک میں جا کر مشکل حالات میں مزدوری کر کے ،اپنے ملک میں لاکھوں روپوں کا زرمبادلہ لیکر آتے ہیں تاکہ ملکی معیشت ترقی کرے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتی کاروباری شخصیات محفوظ کیوں نہیں۔۔۔؟ جس شخص پر تہمت لگائی جا رہی ہے خاندانی ذرائع کے مطابق ایک اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ تقریباً 65 دوکانیں، سرمایہ کاری ،کاروبار ی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading