تحریر: یوسف بینجمن
رواں سال اس حوالے سے اہم ہے کہ دنیا بھرمیں 70 سے زائد ممالک میں انتخابات کا عمل مکمل ہوا اور عوام نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے جمہوری حکومتیں قائم کی ہیں۔ اِس کی تین اہم مثالیں یہ ہیں کہ فروری میں پاکستان، مئی جون میں بھارت اورنومبر میں یوایس اے (متحدہ ریاست ہائے امریکہ) میں عام انتخابات ہوئے ہیں ۔ ہرملک کے انتخابات کا اپنا مزاج اورانداز رہا۔ امریکہ میں جوبائیڈن کا دورِاقتداراختتام کوپہنچا اورعوامی رائے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدارت کے منصب پرپہنچا دیا۔ ٹرمپ نے پہلی بارہیلری کلنٹن کوجبکہ دوسری بار کملا ہیرس کو شکست دی ہے۔
دنیا بھرکا میڈیا ٹرمپ کی جیت کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا میں امریکی انتخابات اور اس کے نتائج کے حوالے سے پوسٹس کی بھرمار ہے۔ دنیا بھر کے لگ بھگ تمام سربراہانِ مملکت، حکومتی ذمہ داران اور اہم شخصیات کی جانب سے ٹرمپ کو مبارکباد کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹرمپ کی حتمی جیت کی اعلان کے ساتھ ہی اس کے حامی خوشی سے نڈھال ہو رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس خوشی میں گویا نہائے جاتے ہیں۔
ہم مگرآپ کو اپنے دل کی بات بتائے دیتے ہیں کہ ہماری دانست میں امریکی صدارتی انتخابات کروانے میں ناکام رہے ہیں ۔ آپ خود ہی جائزہ لے لین کہ جب سے انتخابی عمل شروع ہوا ہے اورانتخابی ریلیاں اورجلسے جلوس ہورہے ہیں ہمیں یہ سارا نظم و ضبط ، طریقہ کار اور انداز ہی پسند نہیں آیا۔ ہم برملا اعلان کئے دیتے ہیں کہ ہمیں امریکی انتخابات کے یہ نتائج منظور نہیں اورساتھ ہی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پھر سے نئے انتخابات کروائے جائیں ۔
یقیناً آپ کو ہماری یہ رائے اورمطالبہ عجوبہ معلوم ہوا ہو مگر آپ خود ہی سوچیں کہ جس دن سے ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس انتخابی میدان میں اترے اور جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں کہیں بھی کسی دہشت گردی کے واقعہ کی کوئی خبر نہیں آئی، نہ جلسوں میں کرسیاں چلی ہیں، نہ عوام بریانی پر ٹوٹی ہے اور نہ ہی ملک کو رنگ برنگے بے ڈھنگے بینرز اور پوسڑز سے “سجایا” گیا ہے۔
ہمیں تو قوی امید تھی کہ کملا ہیرس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف “نا اہلی” کی دو چار درجن درخواستیں تو ضرور منظر پر آئیں گی۔ دوسری جانب ٹرمپ بھی کملا کو ” کملی” قرار دینے کی سر توڑ کوشش کریں گے نیز ٹرمپ کی جانب سے کملا پر ایک مرد کے خلاف الیکشن لڑنے پر فتویٰ تو ضرور جاری ہو گا، مگر ہماری یہ اُمید بھی بر نہ آئی اور دونوں ہی الیکشن لڑنے کے اہل قرار پائے، اسی لئے تو ہم اس عظیم قوم کےانتخابات کو ہی رد کر چکے ہیں کہ جس میں سڑکوں پر کوئی سرکس ہی نہیں لگی اور دو چار بندوں کے سر ہی نہیں پھوٹے۔ اس لئے یہ تو ناکام الیکشن ہی ہو ئے ناں؟
درجنوں ریاستوں میں اتنے بڑے پیمانے پر انتخابی انتظامات ہوئے مگر ماسوائے ایک گولی کے اوروہ بھی صرف کان کو چھو کے گزر گئی اور اتفاقیہ طور پر کوئی ایک آدھ افرد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے علاوہ کہیں سے بھی ہلاکتوں کی خبر نہیں آئی۔ کسی کے حامیوں نے کسی پر نہ تو جوتا اچھالا ، نہ چہرے پر کالک ملی اور نہ ہی دوسرے کے اظہارِ آزادی کو کچلنے کی کوشش کی۔
جماعتی نغموں اور نعروں نے نہ تو عوام کی زندگی اجیرن بنائی نہ جینا حرام کیا۔ کہیں کوئی کنٹینرز نہیں لگائے گئے، راستے بند نہیں کئے گئے، ایمبولینس کو روکا نہیں گیا، مریضوں کو پیدل چلنے پر مجبور نہیں کیا گیا ، کوئی گاڑیوں کے نیچے نہیں کچلا گیا ۔ کسی نے خونی الیکشن قرار نہیں دیا۔ کوئی جلاو گھیروا نہیں ہوا۔ ایک دوسرے کے گھروں پر حملے نہیں ہوئے۔ ایسے تھوڑی ہوتے ہیں انتخابات کہ کوئی بریکنگ نیوز ہی نہ بنے اور سب کچھ اتنے پرامن طور پر مکمل ہو جائے؟ لہٰذا ہمیں تو یہ انتخابات منظور نہیں ہیں ۔
کروڑوں افراد نے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور نامعلوم لاکھوں پولینگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ بنائے گئے، پھر بھی انتخابی عملے کو کسی نے ہراساں نہیں کیا، نہ انتخابی سامان چوری ہوا۔ اور تو اور کسی علاقے کو ” حساس” قرار نہیں دیا گیا۔ معمولاتِ زندگی نارمل رہے۔ مارکیٹس، دفاتراور تعلیمی ادارے کھلے رہے اور ٹریفک روان دواں تھی، ووٹ کاسٹ کرتے وقت نہ کوئی افراتفری ہوئی نہ سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان ۔
باقی آپ فکرنہ کریں ہم نے ہر لحاظ سے ان پھیکے اور بے رنگ انتخابات کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اسی بنیاد پراس سارے عمل اوراس انتخابی نتیجہ کو ہی رد کر دیا ہے۔ ہمیں اتنی امیدیں تھیں کہ دونوں امیدوار ایک دوسرے کی نجی زندگی کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دیں گے اور کمال کہانیاں منطرِعام پر آئیں گی کہ میڈیا کو بھی چند مہینوں کا ایندھن مل جائے گا، مگر کسی نے کسی کے کردار پر، نجی زندگی پر اور خاندانی افراد پر ایک لفظ تک نہیں بولا ، غلیظ قسم کے الزامات ہی نہیں لگائے، ایک دوسرے کو غدار بھی قرار نہیں دیا۔ تنقید بھی اگر کی ہے تو فقط مخالف امیدوار کی جماعت کی پالیسیوں پر اور ساتھ میں اپنا منشور پیش کیا گیا ہے اور ملک و قوم کی خدمت کے وعدے بھی ۔ چھوڑو یا ر ! ایسے تھوڑی ہوتا ہے سیاسی جلسوں میں کہ کوئی اتنا بڑا لیڈر ہو، اتنا بڑا جلسہ ہو اور وہ اپنے گفتار سے اپنے مخالف کی “گھنٹی ” تک نہ بجائے ، کوئی بونگھی نہ مارے ، کوئی ذو معنی جملہ نہ کسے یا ایک بھی غیر اخلاقی لفظ نہ بولے؟ آپ بتائے اس سب کچھ کے بنا ہمارا گزارا ہوتا ہے کیا ؟ یا کوئی قومی لیڈر بن سکتا ہے کیا ؟ ایسے بد مزا اور پھیکے انتخابات کا کیا مزا ہے بھلا؟
کم از کم ہم سے تو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ جب ملک کا صدر (جو بائیڈن) آپ کی اپنی پارٹی کا ہو، کملا ہیرسن خود ملک کی نائب صدر ہو، ساری سرکاری مشینری ، عملہ اور وسائل پر آپ کا اختیار ہو اور اس کے باوجود آپ الکیشن ہار جائیں۔ ایسا بھی کبھی ہوا ہے کیا؟ ہم تو ان نتائج کو نہیں ماننے والے۔
اب آئیے انتخابی نتائج کی بعد کی صورتحال پر۔ انتخابی عمل اپنے وقت پر مکمل ہوا۔ نتائج بھی وقت پر سامنے آ گئے تو ڈونلد ٹرمپ نے اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے جشن منایا تو مخالفین نے ٹرمپ کی جیت اور خود کی شکست کو اتنی آسانی سے تسلیم کر لیا ۔ کوئی دو چار دن تو کوئی تماشہ لگنا چائیے تھا ناں؟ کسی جگہ سے رزلٹس ہی رکوا دیتے، کسی حلقے کا نتیجہ ہی کا لعدم قرار دینے کی درخواست دے دی جاتی۔ حیرت ہے ناں ؟ کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ تو کملا نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی جو بائیڈن نے دھاندلی کا راگ الاپا۔ دونوں کی تقاریر نے اپنے مخالف ٹرمپ کو مبارکباد دے کر اور اپنی شکست تسلیم کر کے سارے کا سارا مزا ہی کِرکرا کر دیا ہے۔ اور تو اور بائیڈن نے پر امن اور منظم طریقے سے اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ کو منقل کرنے کا اعلان کر کے ہمارے جلتے دل کو اور زیادہ جھلسا دیا ہے۔
لاکھوں ڈالر بھی جوئے میں جھونک ڈالے اور حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔ ہمارے تجربہ سے استفادہ کیا جاتا تو آج منظر مکمل طور پر فرق ہوتا اور ووٹ گننے کی بجائے نعشیں گن رہے ہوتے بڑے آئے امریکی انتخابات کروانے۔ انتخابات کروانے ہوں تو ہم سے سیکھو۔ ہمیں تو امریکیوں کے ایسے پرامن اور منظم انتخابات ناکام ہی معلوم ہوتے ہیں۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔