تحریر: وقاص قمر بھٹی
آج کی دنیا میں سوشل میڈیا ایک اہم وسیلہ بن چکا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے لوگ اپنے خیالات، تجربات اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں اور معاشرتی مسائل پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ اس کے منفی اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں کی ذہنی سکون پر۔ اس آرٹیکل میں ہم سوشل میڈیا کے نوجوانوں پر اثرات، ذہنی سکون کے حوالے سے اس کے خطرات، اور اس کے ذمہ دارانہ استعمال کی اہمیت پر گفتگو کریں گے۔
” ذہنی سکون”
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال نوجوانوں کی ذہنی سکون پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، تناؤ، اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بے تحاشہ مواد کی رسائی اور اس کا فوری جواب دینے کی عادت نوجوانوں کو نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر رہی ہے۔
نوجوان جب مختلف پوسٹس، تصاویر یا ویڈیوز دیکھتے ہیں تو ان کی توقعات اور معاشرتی معیار بھی متاثر ہوتے ہیں، جس سے وہ اپنی زندگی کو دوسرے لوگوں کے معیار سے موازنہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ انہیں خود سے مطمئن نہیں ہونے دیتی اور ان کی ذہنی سکون میں کمی واقع ہوتی ہے۔
“طیش میں آ کر غیر ذمہ دارانہ پوسٹس”
نوجوانوں میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اکثر جذباتی طیش میں آ کر غیر ذمہ دارانہ پوسٹس شیئر کرتے ہیں۔ یہ پوسٹس نہ صرف ان کے ذاتی سکون کو متاثر کرتی ہیں، بلکہ کبھی کبھار وہ قانون کی خلاف ورزی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی پوسٹ شیئر کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کی جائے۔ آیا وہ سچ پر مبنی ہے یا جھوٹ پر؟ اکثر غلط معلومات یا افواہیں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل جاتی ہیں، جو نہ صرف فرد کی ذاتی حیثیت کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ پورے معاشرے میں انتشار اور بے چینی پیدا کرتی ہیں۔
پاکستان کے آئین کی دفعہ 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے، تاہم اس آزادی کے ساتھ ساتھ ہر شخص پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اس آزادی کا استعمال اس انداز میں کرے کہ دوسرے افراد کے حقوق اور امن میں خلل نہ پڑے۔
“سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں”
سوشل میڈیا ایک ایسا طاقتور ٹول بن چکا ہے جس کے ذریعے لوگ کئی بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتے ہیں۔ کچھ افراد سوشل میڈیا کا استعمال کر کے دوسروں کو بدنام کرنے، تضحیک کرنے یا ان کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آن لائن ہراسانی، خواتین کے بارے میں توہین آمیز تبصرے اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے جیسے مسائل بھی بڑھ چکے ہیں۔
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 19-A کے تحت ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس معلومات کا درست اور ذمہ دارانہ استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے، نفرت انگیز مواد شیئر کرنے، اور دوسروں کی عزت کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے پاکستان میں قانون موجود ہے، جیسے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2016 جو آن لائن ہراسانی اور بدنام کرنے کے کیسز کو ہینڈل کرتا ہے۔
“نوجوانوں کے لیے ذمہ داری کا احساس”
نوجوانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال کریں اور اس کے اثرات کو سمجھیں۔ ہمیں ہر پوسٹ یا ویڈیو کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت کو جانچنا ہوگا۔ اگر ہم کسی پوسٹ کو صرف اس لیے شیئر کرتے ہیں کہ وہ ہمارے جذبات سے میل کھاتی ہو، تو اس سے نہ صرف ہم اپنی ذہنی سکون کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ہم دوسروں کے ذہنوں میں بھی غلط تاثر چھوڑ سکتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر بھی زور دینا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر مثبت مواد کا اشتراک کریں، تاکہ نہ صرف ہماری ذاتی ذہنی سکون بہتر ہو، بلکہ معاشرے میں بھی یکجہتی اور محبت کا پیغام جائے۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ان کے ذریعے شیئر کی جانے والی معلومات کسی دوسرے فرد کے حق میں نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ اس کے لیے انہیں بہتر سوشل میڈیا ایٹی کوٹس (Netiquettes) سکھانا ہوگا۔
“سوشل میڈیا پر کنٹرول”
سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت اور معاشرتی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو آن لائن ہراسانی، جعلی خبروں اور نفرت انگیز مواد پر کنٹرول کرنے کے لیے مضبوط قوانین بنانے چاہیے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اس بات کی ذمہ داری لینی چاہیے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر ہونے والے ایسے مواد کا تدارک کریں جو عوامی امن میں خلل ڈالتا ہو۔
مزید برآں، نوجوانوں کو خود کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کریں تاکہ ان کے ذہنی سکون میں اضافہ ہو۔ ان کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ سوشل میڈیا صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور معلوماتی وسیلہ بھی ہے جسے ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنا ضروری ہے۔
ہمیں نوجوانوں کے لیے خصوصی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے جس میں سوشل میڈیا کا استعمال اس کے فائدے اور نقصان کے بارے میں مکمل اگاہی دی جا سکتی ہے ہم اس کولوں اور وہ تمام پلیٹ فارم پر اس کی گاہی دینا ضروری ہے جس میں نوجوانوں کی شرکت ہوتی ہو کیونکہ
سوشل میڈیا ایک طاقتور آلہ ہے جس کا استعمال اگر درست طریقے سے کیا جائے تو یہ نہ صرف ہماری زندگیوں کو بہتر بنا سکتا ہے بلکہ ہمیں ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں بھی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے نوجوانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر پوسٹ کی حقیقت کو جانچنا اور اس کا ذمہ داری سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے قانون، آئین، اور انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنی ہوگی تاکہ سوشل میڈیا کا استعمال مثبت اور فائدہ مند ثابت ہو۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔