تحریر: آصف امین

یہ سوال کہ “کیا سائنس اور مذہب الگ الگ ہیں؟” انسانی فہم و ادراک کا ایک قدیم مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ انھیں ایک دوسرے کا مخالف سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ انھیں ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار دیتے ہیں۔ تاہم، اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سائنس اور مذہب اپنی فطرت، طریقہ کار اور مقاصد کے اعتبار سے بالکل الگ الگ دنیائیں ہیں۔

سائنس کا علم مشاہدے، تجربے اور دلیل پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ مذہب وحی، الہام اور ایمان پر استوار ہوتا ہے۔ سائنس ایک تھیوری کو بار بار پرکھتی ہے، اس پر سوال اٹھاتی ہے اور اگر کوئی نیا ثبوت سامنے آ جائے تو اپنے نظریات میں تبدیلی کر لیتی ہے۔ دوسری طرف، مذہبی عقائد کو الہامی مانا جاتا ہے، جو تبدیل نہیں ہوتے اور ہمیشہ مستند سمجھے جاتے ہیں سائنس ہمیشہ سوالات کو جنم دیتی ہے اور کسی بھی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے تجربات کا سہارا لیتی ہے۔ اگر کوئی مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو اسے ترک کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مذہب انسان سے غیر مشروط یقین کا مطالبہ کرتا ہے اور بعض معاملات میں سوال اٹھانے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مذہب کے بعض عقائد ایمان بالغیب ہوتے ہیں اور ان عقائد کو ہم سائنسی اصولوں پر نہیں پرکھ سکتے

مذہب کا بنیادی مقصد انسان کو روحانی اور اخلاقی راہنمائی فراہم کرنا ہے۔ یہ زندگی کے معنی، آخرت اور نجات جیسے موضوعات پر توجہ دیتا ہے۔ دوسری جانب، سائنس کا مقصد مادی دنیا کے حقائق کو سمجھنا، فطرت کے اصول دریافت کرنا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زندگی کو آسان بنانا ہے۔
سائنس میں کسی بھی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے عقلی اور تجرباتی شواہد ضروری ہوتے ہیں۔ ایک سائنسی نظریہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے اور کسی بھی وقت نئے شواہد کی بنیاد پر رد یا تبدیل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، مذہبی سچائیاں ابدی سمجھی جاتی ہیں اور انھیں انسانی عقل سے بالاتر قرار دیا جاتا ہے۔
سائنس مادی دنیا اور قدرتی قوانین پر تحقیق کرتی ہے، جبکہ مذہب مافوق الفطرت دنیا کی بات کرتا ہے۔ سائنس معجزات کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ وہ تجربے اور طبیعی قوانین کے خلاف ہوتے ہیں، جبکہ مذہب میں معجزات کو حقیقت مانا جاتا ہے۔

صدیوں سے انسان دو جہانوں میں بٹا ہوا ہے ایک جہاں وہ تجربات اور مشاہدات سے حقائق تلاش کرتا ہے، اور دوسرا جہاں وہ ایمان اور یقین کے سہارے زندگی کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دو جہان سائنس اور مذہب کے ہیں، جو اپنی فطرت، دائرہ کار اور طریقہ کار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

سائنس وہ چراغ ہے جو کائنات کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا ہے، جو ستاروں کی گردش سے لے کر انسانی جینز کے راز تک سب کچھ کھوجنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر سائنس کا دائرہ صرف مادی دنیا تک محدود ہے۔ یہ تجربے اور شواہد کی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کرتی ہے، اور جیسے ہی کوئی نئی دریافت ہوتی ہے، پرانی دیواریں گر جاتی ہیں۔ کل تک زمین کو ساکن سمجھا جاتا تھا، مگر آج ہم جانتے ہیں کہ یہ سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ کل تک نیوٹن کے قوانین مطلق سمجھے جاتے تھے، مگر آئن سٹائن نے انہیں مزید وسیع کر دیا۔ یہی سائنس کی خوبصورتی ہے کہ یہ خود کو بدلتی رہتی ہے۔

دوسری طرف، مذہب انسان کے روحانی وجود کا نگہبان ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ مذہب کے اصول وقت کے ساتھ نہیں بدلتے، کیونکہ انہیں وحی اور الہام کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ مذہب اخلاقیات، نیکی، بدی اور آخرت جیسے موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے، جبکہ سائنس صرف ان چیزوں کو قبول کرتی ہے جنہیں آزمایا اور ثابت کیا جا سکے۔

یہ دونوں دنیا اپنے اپنے دائرے میں بہترین ہیں، مگر جب انہیں زبردستی یکجا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب سائنس مذہب کے معاملات میں دخل دیتی ہے، تو وہ روحانی سچائیوں کو محض فزکس اور کیمسٹری کے قوانین کے پیمانے پر پرکھنے لگتی ہے، جو اس کا اصل کام نہیں ہے۔ اور جب مذہب سائنس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو سچائی کے متلاشی ذہن شکوک و شبہات میں پڑ جاتے ہیں۔

ماضی کی کئی مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔ گلیلیو کی تحقیق نے جب یہ ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، تو اسے کفر کے الزام میں سزا دی گئی۔ چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو اب بھی کئی مذہبی حلقے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، حالانکہ سائنس اس پر مسلسل تحقیق کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس ہمیشہ درست ہے یا مذہب ہمیشہ غلط، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے دائرہ کار مختلف ہیں اور انہیں ان کی حد میں رہنا چاہیے۔

یہ کہنا کہ سائنس اور مذہب ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں، حقیقت سے نظریں چرانا ہوگا۔ دونوں کی بنیاد، طریقہ کار اور مقصد الگ الگ ہیں۔ سائنس اس دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ ہے، جبکہ مذہب اس دنیا میں جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ سائنس سوالات اٹھاتی ہے، مذہب یقین پیدا کرتا ہے۔ سائنس دیکھنے کا نام ہے، مذہب ماننے کا۔ اگر ہم ان دونوں کو ان کی حدود میں رکھیں اور ایک کو دوسرے پر زبردستی مسلط نہ کریں، تو شاید ہم ایک متوازن، روشن اور پرامن دنیا کی بنیاد رکھ سکیں۔
سائنس کا محور یہ ہے کہ یہ دنیا کیسے وجود میں آئی جب کہ مذہب اس چیز کے گرد گھومتا ہے اس دُنیا میں زندگی کیسے گزاری جائے
سائنس اور مذہب کے درمیان فرق کو تسلیم کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم ان سے اپنے اپنے دائرے میں بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر ہم مذہب کو سائنسی تجربات کی بنیاد پر پرکھیں گے، تو ہم اس کی روحانی تاثیر سے محروم ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم سائنس کو مذہبی عقائد کے تابع کرنے کی کوشش کریں گے، تو ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ دونوں کو الگ الگ تسلیم کرنا ہی دانش مندی ہے، یہی حقیقت ہے۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading