پاکستانی مسیحیوں کی سیاسی راہنمائی کیسے کی جائے یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ انکی قائدانہ نا اہلی کے سبب موجودہ اقلیتی وزرا کی ہندو اور سکھ کمیونٹیز سے صوبائی اور قومی سطح پر قلمدان سنبھالنے پر فاضل کمیونٹی مایوس کن صورت حال سے دو چار ہے یہ سٹیٹ کے معاملات کا مطالعہ کرتے ہیں نہ جمہوریت کا قانون کا نہ مذہب کا کتابیں پڑھنا ان کی عادت نہیں انگریزی میں کہتے ہیں”لٹل نالج از سو ڈینجرس“
قارئین میں کم علم شخص کےایسےعہدوں پر آنے کو توہین نہیں سمجھتا لیکن کم علم لوگوں کی لیاقت و قابلیت کے طفیل قوموں کی حقیقی قیادت کی تاریخ کو جانتا ہوں کیونکہ کم علم اور بے شعور میں فرق ہے۔کل کے کم علم بادشاہ بھی ذہین و فطین وزیروں یا مشیروں کو ساتھ لے کر چلتے تھے تاکہ وہ کم علم تو ہیں ہی لیکن بے شعوری کے عالم میں کہیں رعایا کا ناقابل تلافی نقصان نہ کر بیٹھیں جبکہ جانی و مالی حفاظت کی ذمہ داری کا خیال ہر ایک ریاست کے ہر شہری کا ہر دور میں ہر منصف وعادل بادشاہ نے ہمیشہ رکھا ہے خواہ وہ کسی بھی ملک اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ مذاہب اور کمیونٹیز اخلاقی قدروں کا منبع ہیں اور آج بھی ہیں لیکن پاکستانی اقلیتوں کے حقوق اور مطالبات کےتحت عدل و انصاف حاصل نہ کرنے میں کم علمی تو اس میں آڑے آتی ہی ہے اس میں پڑھے لکھے بھی بے شعور اس وقت نظر آئے جب وہ میاں محمد نواز شریف کے منظور نظر ہوتے ہوئے بھی بابا فیلبوس جیسے ایم پی اے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں آج بھی لکھ رہے ہیں کہ
”جو کوئی مذہبی اور سیاسی عہدے پر ہو کر بھی اپنی قوم کی بات نہ کرے اسے آپ کیا کہیں گے؟ فاضل ایم پی اے کا یہ سوال۔۔۔۔ ؟ “ پنجابی کہاوت ہے کہ
”اک اونج کملی اتوں مڑیاں والے راہ“
سیاست آپ کر رہے ہیں عہدہ آپ کے پاس ہے اور دوسروں سے رائے بھی آپ مانگ رہے ہیں آپ نے اسمبلی میں جداگانہ الیکشنز مانگا یا اس پر بات کی تو سب نے آپکو سراہا اور راقم الحروف نے بھی آپکو ایک کالم میں خراج تحسین پیش کیا اس کے بعد آپ نے خاموشی اختیار کر لی اور صرف فوٹو سیشنز تک محدود ہوگئے اور آج پوسٹ کے توسط سے دوسروں کا منہ دیکھ رہے ہیں کیا آپ نے اپنے موقف پر اسمبلی میں محترمہ مریم نواز شرف وزیر اعلی’ پنجاب اور میاں محمد نواز شریف سے اس سلسلے میں ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ اقلیتوں کی تشویش پر کوئی قانون سازی کے لیے ایک بڑی لابی کے ذریعے بات کی ہے؟ جو آپکا کرنے والا کام ہے لیکن آپ کی توجہ بے صبری سے در اصل اپنی مسیحی کمیونٹی پر ہے کہ دیگر کمیونٹیز کو وزارت کے قلمدان سنبھالنے پر مسیحی کمیونٹی کےایک جذباتی اور فطری رد عمل پر مرکوز ہیں۔
قارئین آج کل ہم پنجاب میں صوبائی سطح پر رمیش سنگھ اروڑہ اور قومی سطح پر کھیل داس کوہستانی کو وقت کے بیر بل ثابت ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن مسیحی کمیونٹی کے کچھ کم علم لوگ صرف فاضل وزرا کی نامزدگی پر سوشل میڈیا پر غیر منطقی دلائل کے ذریعے ان پر ناپسندیدگی کے تحت مسیحیوں کے صرف حقوق کی شعوری بیداری کا تذکرہ کر رہے ہیں تاریخ میں داناوں اور قابل لوگوں کے لیے ایسے مواقع کبھی بھی نہیں چھینے گئے۔ اور اہل لوگوں کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے۔
شہنشاہ اکبر کا ایک وزیر بیربل گزرا ہے جو عقل و دانش کے تحت پوری ریاست پر اس کے منہ سے نکلی بات قانون کہلاتی دیکھی گئی ہے کیونکہ وہ جو منہ سے بات نکالتا تھا اسے شہنشاہ اکبر کو قانونی حیثیت دینا پڑتی تھی
اکبر کے دربار کے سبھی لوگ بیربل سے جلنے لگے اور کیوں نہ جلتے، آخر بادشاہ بیربل سے محبت بھی تو کتنی کرتا تھا۔ ایک دن بیربل کی طبیعت خراب ہوئی۔
اکبر کے دربار کے سبھی لوگ بیربل سے جلنے لگے اور کیوں نہ جلتے، آخر بادشاہ بیربل سے محبت بھی تو کتنی کرتا تھا۔ ایک دن بیربل کی طبیعت خراب ہوئی۔ بادشاہ بہت اداس بیٹھا ہوا تھا۔ تمام درباری وجہ سمجھ گئے کہ آج بیربل کے نہ آنے کی وجہ سے بادشاہ اداس ہیں۔ ایک دربار نے کہا، ’’جہاں پناہ! بیربل میں ایسی کون سی بات ہے جو ہم میں نہیں۔ کبھی ہم کو بھی تو اپنی عقلمندی کا ثبوت دینے کا موقع دیجئے۔‘‘ اکبر نے ٹالنے کیلئے کہا، ’’بھائی مجھے تمہارے اوپر بھروسہ نہیں ہے اس لئے مَیں تمہارا امتحان لینا نہیں چاہتا۔‘‘ لیکن درباریوں نے کہا کہ، ’’آپ ہماری عقل کا امتحان لیجئے اگر ہم اس میں پورے نہ اتریں تو پھر جو جی چاہے کہئے گا۔‘‘ جب بادشاہ نے یہ دیکھا کہ آج یہ لوگ ایسے نہ مانیں گے تو اس نے ڈھائی گز کا ایک کپڑا منگایا۔ جب کپڑا آگیا تو بادشاہ نے کہا، ’’اب مَیں بستر پر لیٹا جاتا ہوں، تم میرا سارا جسم اس کپڑے سے ڈھک دو۔‘‘
اب ہر ایک نے اس کپڑے سے اکبر کے جسم کو ڈھکنے کی کوشش کی۔ مگر ڈھائی گز کا کپڑا اتنا کیسے ہوسکتا تھا کہ سارا جسم ڈھک سکے۔ وہ سر ڈھکتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا۔ آخر عاجز آکر انہوں نے بادشاہ سے معافی مانگی کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں۔
اب بادشاہ نے حکم دیا کہ بیربل کو فوراً لایا جائے۔ وہ جس عالم میں ہوں ان کو پالکی پر لے آیا جائے۔ جب بیربل آئے تو اکبر نے ان کو ساری بات بتائی اور کہا کہ اب تم ذرا اس ڈھائی گز کے کپڑے سے میرے سارے جسم کو ڈھک دو۔‘‘ بیربل نے چادر اٹھائی اور بادشاہ کے پاؤں دہرے کئے، چادر ڈال دی، اب پاؤں کے سکڑنے سے سارا جسم ڈھک گیا نہ تو سر ہی کھلا اور نہ پاؤں۔ بادشاہ نے کہا، ’’مگر تم نے میرے پاؤں کیوں دہرے کر دیئے۔‘‘ بیربل نے کہا، ’’جہاں پناہ! ہمارے یہاں ایک مثل ہے کہ ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہئے۔ اسی لئے مَیں نے آپ کے پاؤں چادر کو دیکھتے ہوئے سکیڑ دیئے۔‘‘ یہ جواب سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور درباری لاجواب ہوگئے۔ ایک اورکہاوت ہے کہ ایک مرتبہ اکبر، بیربل سے ناراض ہوگئے اور اس کو ذرا سی بات پر دربار سے نکال دیا۔ بیربل کو اس بات سے اتنی تکلیف پہنچی کہ وہ دہلی چھوڑ کر بہت دور پر ایک اور بادشاہ کی حکومت میں چلے گئے۔ کچھ دنوں تک تو غصے میں اکبر کو بیربل کی یاد نہ آئی لیکن پھر تو بغیر بیربل کے دربار سونا سونا لگنے لگا۔ اس نے ہر جگہ اپنے سفیر بھیجے کہ وہ بیربل کا پتہ لگائیں لیکن بیربل کا پتہ نہ چل سکا۔
آخر بادشاہ کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے پاس پڑوس کے ملکوں کے بادشاہوں کے نام ایک دعوت نامہ بھیجا۔ ہمارے دریا کی شادی ہو رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ کے دیس کی ندیاں بھی اس تقریب میں شرکت کریں۔‘‘
لیکن اس دعوت نامے کا جواب کسی دربار سے نہ جاسکا۔ جس بادشاہ کے یہاں بیربل تھا اس نے لکھ بھیجا کہ، ’’ہماری ندیاں سب کی سب آنے کیلئے تیار ہیں۔ آپ اپنے یہاں کے کنویں کو انہیں لے جانے کے لئے بھیج دیجئے۔‘‘
اب یہ جواب پا کر اکبر سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو بیربل اسی دربار میں ہے۔ اس نے فوراً وہاں کے بادشاہ کو لکھا کہ، ’’وہ بیربل کو بھیج دیں۔‘‘
چنانچہ اس طرح بیربل پھر اکبر کے دربار میں واپس آگئے
برادرم کامران مائیکل اور خلیل طاہر سندھو بھی آج کل اسی کیفیت سے دوچار ہیں اور انکی اس صورت حال میں انکے کچھ مفاد پرست ساتھی انہیں آہ و نالہ میں دیکھ کر سوشل میڈیا پر انکی حمایت میں ایک مہم چلا رہے ہیں جس میں مسیحیوں کے حقوق سے منسوب یہ معاملہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کو وزارت سے محروم کیا گیا ہے۔
قوموں کو دلدلوں سے نکالنے کی تاریخ بتاتی ہے کہ کم علم لوگ بھی شعور رکھتے ہوں تو قوموں کی نجات جان کی امان پاکر بھی بادشاہی دور میں بھی حاصل کر لیتے ہیں بائیبل مقدس میں آستر اور نحمیاہ یہودیوں کی نجات پر( بابل میں ارتخشستا بادشاہ اور اخسویریس بادشاہ کے دور میں قصر سوسن) کی بھی یہی داستان ہے نحمیاہ بادشاہ کا حادثاتی ساقی اور آستر حادثاتی طور پر ملکہ کے عہدے پر فائز کیے گئے تھے جہاں یہودیوں کو اسیر کرنے اور ان پر جبر حتی’ کہ قتل کرنے کی سازشیں جنم لے چکی تھیں آستر اگر حادثاتی ملکہ اور نحمیاہ بادشاہ کا ساقی ہوکر یہودی کمیونٹیز کےلیے ایمان اور قربانی کے ذریعے کھڑے تھے تو انہوں نے کمیونٹیز کو دلدل سے نکال لیا آج آپ کہاں کھڑے ہیں؟ آپ اپنے آپکو بیر بل ثابت نہ کر سکے اور اس قابلیت میں رمیش سنگھ اروڑہ اور کھیل داس کوہستانی سبقت لے گئے مسیحی کمیونٹی میں قیادت کے فقدان کو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے ذمہ دار بھی پچھلے 20 سال سے حکومتوں سے چپکے اور رینگتے ہوئے سیاسی نمائیندگان ضرور ہیں ماضی کے بیر بلوں میں یعنی وزرا اور مشیران میں ایس پی سنگھا جوگندر ناتھ منڈل پیٹر جان سہوترہ روفن جولیس جے سالک جانس مائیکل شہباز بھٹی اکرم گل ڈاکٹر پال بھٹی اور خلیل جارج اور دیگران بھی رہے آج ان کے vision کا کوئی نام لینے والا کیوں نہیں؟ کیونکہ کوئی بھی شخصیت نظریاتی سیاست کے فروغ میں نمایاں کر دار ادا نہ کر سکی اگر شہباز بھٹی پر اقلیتوں نے اعتماد کیاتو اس کے مخلوط طرز انتخاب کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اقلیتوں کی سیاست کے لیے غیر موزوں لگ رہا ہے اور تقسیم کا سبب ہے اسکے فالورز باہمی طور پر اب آگے بڑھنے کی بجائے ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں ہر سیاسی ذہین نئے سرے سے قوم کو سر کرنا چاہتا ہے آج ایک بھی مسیحی سیاسی پارٹی کا پاکستان میں وجود نہیں کیونکہ نا اہلیت اور بے شعوری کا فروغ ہے
بیربل کامران مائیکل اور بیر بل خلیل طاہر سندھو حکومتی ایوانوں کےاندر رہ کر چھوٹے بڑے میاں کے منظور نظر تو رہے لیکن جو خلا اب انکے درمیان آیا ہے اس کا تصور کبھی ہم نہیں کر رہے تھے اور یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا کام بولتا ہے نام نہاد سرگرمیاں اور سیاست میں حادثاتی وجود آخر ختم ہوجاتا ہے اور انکی سرگرمیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں ہم رمیش سنگھ اروڑہ اور کھیل داس کوہستانی کو حقیقی طور پر انکی فہم و فراست لگن اور جدوجہد کے قدر دان ہیں برادرم کامران مائیکل اور خلیل طاہر سندھو جمہوریت پر اقلیتوں پر لگی ہوئی قدغن ختم کروانے میں پچھلے بیس سالوں سے کوئی قانون سازی نہ کرواسکے حالانکہ اقلیتیں مسلسل ان سے بہت سی توقعات رکھتی رہیں۔
بقول یوسف پرواز
پھر وہ مجھ کو اپنا اپنا کہتا ہے
پھروہ مجھ کو دھوکادینا چاہتا ہے
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔