تحریر ڈاکٹر جاوید مسیح
تحریکِ پاکستان ایک ایسی ہمہ گیر جدوجہد تھی جس کے ہر پہلو میں قائداعظم محمد علی جناح کی دوراندیشی، اصول پسندی اور بے مثال قیادت نظر آتی ہے۔ جہاں ان کی سیاسی بصیرت، آئینی جدوجہد اور گفتار کی بے پناہ قوت نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے متحد کیا، وہیں صحافت کے میدان میں ان کی خدمات بھی انتہائی اہم اور قابلِ ذکر ہیں۔
قائداعظم کی صحافت سے وابستگی
قائداعظم محمد علی جناح صحافت کی طاقت سے بخوبی واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رائے عامہ کی تشکیل اور تحریک کے پیغام کو عوام تک مؤثر انداز میں پہنچانے کے لیے ایک مضبوط اور بااصول صحافت ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اخبارات کی سرپرستی کی بلکہ صحافیوں کی اخلاقی تربیتی اور رہنمائی بھی کی۔
ساجد زکریا اپنی کتاب “قائداعظم میری نظر میں” میں لکھتے ہیں:
> “قائداعظم اخبارات کو تحریکِ پاکستان کا ایک موثر ہتھیار سمجھتے تھے۔ وہ اکثر اخبار نویسوں کو تحریک کے مقاصد سمجھانے کے لیے وقت دیتے اور چاہتے تھے کہ صحافت قوم کی بیداری کا ذریعہ بنے نہ کہ فتنہ انگیزی کا۔”
(حوالہ: ساجد زکریا، “قائداعظم میری نظر میں”، صفحہ 72)
قائداعظم اور صحافت — ایک فکری رشتہ
اظہر سید اشتیاق نے اپنی کتاب “قائداعظم اور صحافت” میں قائداعظم کی صحافتی حکمتِ عملی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
> “قائداعظم کی قیادت میں صحافت نے قومی آزادی کی ایک بھرپور تحریک میں تبدیلی پائی۔ وہ غیر ذمہ دار صحافت کے سخت مخالف تھے اور ہمیشہ اصولی اور سچ پر مبنی رپورٹنگ کے حامی رہے۔ ان کے نزدیک ایک صحافی کا کردار ایک استاد سے کم نہ تھا۔”
(حوالہ: اظہر سید اشتیاق، “قائداعظم اور صحافت”، صفحہ 119)
قائداعظم نے مختلف ادوار میں Dawn، Morning News، The Star of India جیسے اخبارات کی پشت پناہی کی۔ خاص طور پر Dawn اخبار، جس کی بنیاد 1941 میں دہلی میں رکھی گئی، تحریکِ پاکستان کا ترجمان بن گیا۔ اس کی اشاعت کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کا مؤقف دنیا کے سامنے لانا تھا۔
انگریزی مؤرخین کی آراء
انگریزی زبان کے مؤرخین اور مصنفین نے بھی قائداعظم کی صحافت سے وابستگی کو سراہا ہے۔
Stanley Wolpert اپنی معروف کتاب “Jinnah of Pakistan” میں لکھتے ہیں:
“Jinnah understood the power of the press and used it with great discipline and dignity. Through the press, he sought to educate the Muslim masses and mobilize them politically, staying away from inflammatory or irresponsible journalism.”
(Stanley Wolpert, “Jinnah of Pakistan”, Oxford University Press, p. 185)
اسی طرح Ian Bryant Wells نے اپنی کتاب “Ambassador of Hindu-Muslim Unity: Jinnah’s Early Politics” میں واضح کیا:
“The press was one of Jinnah’s most trusted allies. He never underestimated its power, yet demanded from it a high standard of responsibility and ethics.”
(Ian Bryant Wells, “Ambassador of Hindu-Muslim Unity”, Cambridge University Press, p. 211)
قائداعظم کا اخباری بیانیہ اور اس کا اثر
قائداعظم کا اندازِ بیان ہمیشہ پُرمغز، شائستہ اور غیر جذباتی ہوتا۔ یہی انداز اخبارات میں بھی منتقل ہوا۔ اُن کی قیادت میں مسلم لیگ کے ترجمان اخبارات نے قوم کو ایک نظریہ دیا، باطل پروپیگنڈے کا توڑ کیا اور مسلمانوں کے قومی جذبات کو شعوری قوت میں بدل دیا۔
نتیجہ
تحریکِ پاکستان کی تاریخ میں قائداعظم کی صحافتی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ صرف ایک سیاست دان یا وکیل نہیں تھے، بلکہ وہ صحافت کو قوم سازی کا ایک اہم ہتھیار سمجھتے تھے۔ اُن کی فکری رہنمائی اور صحافت کے ساتھ گہری وابستگی نے تحریکِ پاکستان کو وہ آواز بخشی جو دلوں تک پہنچی، ذہنوں کو روشن کیا اور قوم کو ایک منزل پر متحد کیا۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔