ایک غیرمستند خبر جس نے پاکستانی ہجوم کو قوم بنادیا۔ امجدپرویز ساحل

Amjad pervaiz, AZM Technologies

پاکستان اور بھارت کی میڈیا وار اپنے عروج پر تھی دونوں ایک دوسرے پر جھوٹی سچی خبروں اور تجزیوں کے تیر چلا رہے تھے۔ ایسے میں میرے سامنے ایک وڈیو گزر ی جس میں ایک شخص پاک فضائیہ کے ایک پائلٹ کامران بشیر مسیح کی بہادری کے قصے سنا رہا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ہماری عسکری طاقت واقعی ایک ناقابل تسخیر فورس ہے اور ہماری فوج کے ہوتے ہوئے دشمن کی کیا مجال کہ ہمارے وطن پاکستان کی طر ف کوئی میلی آنکھ سے دیکھے، ہمارے پائلٹ کامران بشیر مسیح نے انڈیا کو ناکوں چنے چبا دئیے ہیں۔
وڈیو دیکھنے کے کوئی لگ بھگ دو چار گھنٹوں بعد میں نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر ہر طرف کامران کامران ہورہی تھی۔ کیا ٹک ٹاک،کیا یوٹیوب ہر طرف اس پائلٹ کے گن گائے جا رہے تھے۔ جنگ کے وہ چار پانچ دن کامران بشیر گوگل اور ٹویٹر (ایکس) پر ٹاپ ٹرنیڈ جار ہا ہے،ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے اینکر اور میڈیا چینل کامران مسیح کو کوریج دے رہا تھا۔
اس ویوز اور کمنٹ کے شور میں چند آوازیں یہ بھی آرہی تھیں کہ وہ باقاعدہ پائلٹ نہیں بلکہ ایک مال بردار جہا ز سی ون تھرٹی کا پائلٹ ہے۔ الغرض کامران ہر طرف موضوع بحث تھا۔اس نے محاذ پر جنگ لڑی کہ نہیں اب تو یہ بات تحقیق یا پھر کامران کے خود کے انٹرویو سے ہی معلوم ہو سکتی ہے کہ اصل کہانی کیا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو جنگ میں زخمیوں کو پانی پلانے والے کی بھی وہی اہمیت ہوتی ہے جو محاذ پر لڑنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو کامران سمیت پاک فوج سے لیکر تمام افواج ہی قابل قدر ہیں۔
چلیں جو کچھ ہے لیکن اس خبر نے کم از کم ایک ایسا کام ضرور کردیا جس کا انتظار بالعموم پچھلے ستر سال اور بالخصوص پچھلی دو اڑھائی دہائیوں سے ہورہا تھا۔ ویسے تو یہ تقسیم ملکِ پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنی جس کو آج بھی ہم دو قومی نظریہ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور بعد میں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر نے یہ بات واضع کردی کی حاصل کیا گیا وطن کس سمت پر چلے گا۔مطلب وہ نظریہ اُسی وقت ختم ہوجانا چاہیے تھا جس کا اولین مقصد نئی مملکت کا حصول تھا۔یعنی دوقومی نظریہ دراصل مسلمان ہند کے لیے ایک علیحدوطن کا مطالبہ تھا۔اُس وقت کے ہندووں کے ظلم و ستم سے نجات کے لیے ایک علیحدہ وطن۔ جس کو اُس وقت کی دیگر اقلیتوں نے بھی تسلیم کرکے ملک پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیا۔ کیونکہ تشکیل پاکستان کے بعد ہمیں پہلے سے زیادہ محبت اور امن کی ضرورت تھی تاکہ یہ نئی نویلی ریاست مسلمان اور دیگر اقلیتوں سمیت سخت محنت سے پاکستان کی ترقی کا ایک شاندار آغاز ہو سکے لیکن افسوس ہم ایسا کر نہیں پائے، ہم پہلے دن سے اس دوقومی نظریئے کو ساتھ لیکر چلے اور پاکستان کو دومزید دو حصوں میں تقسیم کردیا۔یعنی ایک اکثریت اور دوسری اقلیت۔
لہذا یہ تو طے تھا کہ اگر ہندوستان مذہب کی بنیاد پر دوحصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ہو سکتا بھلے وہ جغرافیائی طور نہیں ہوا لیکن سماجی طور پر تو ہو ہی گیا جبکہ اب ہمیں ایک ہونے کی ضرورت تھی ایک مطلب بلارنگ و نسل و مذہب ایک پاکستانی تاکہ ہم اپنے مقدمہ کو مزید مضبوط کر سکیں۔ہم جہدو جہد کرسکیں جو سچ اور حق پر تھی۔
ابتدا میں ہی مسلم اکثریت نے خود پاکستان کا پہلے درجے کا شہرظاہر کرنا شروع کر دیا اور غیرمسلم کو دوسرے درجے کا شہری۔ وقت گزرے کے ساتھ ساتھ یہ سماجی خلیج اور بڑھتی گئی اور ملک کی غیر مسلم اقلتیوں کو سماجی رویوں،معاشرتی اور مذہبی برتری نے دیوار کے ساتھ لگا دیا جو کہ آج تک ہے۔ اکثریت کے اس روئیے نے اس اقلیت سے تعلیم، روز گار اور کاروبار (جوبھی چھوٹا موٹا) تھا چھین لیے۔ یہاں تک کے ضیائی دور میں تو بات برتنوں کے چھونے تک جا پہنچی۔
وقت گزرتا گیا، حالات نے دوبارا پلٹا کھایا اور وقت کچھ بدلا۔ کچھ سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں نے سماجی ہم آہنگی پر کام شروع کردیا، سیاسی نظام میں تبدیلیاں ہوئیں، الیکشن جو کبھی اعلیحد ہ تھے اکٹھے ہوئے، غیرمسلم پاکستانی جنہیں عرف عام میں اقلیت کہا جاتا ہے اُسے مین سٹریم سیاست میں آنے کا موقع ملا۔ بھلے ابھی اقلیتوں میں تک کسی کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ اوپن سیٹ پر ووٹ مانگ سکے چلیں جوبھی ہوا مطلب ووٹ دینے کا حق تو ملا لیکن ابھی تک ووٹ لینے کا حق نہ مل سکا۔
لوگ ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ بھلے ووٹ کے بہانے ہی سہی چلیں ہمارے سیاسی نمائندے مشترکہ تو ہوئے۔ تھوڑی بہت بات جھوٹے منہ ہی سہی ایک دوسرے کو عزت ہونے لگی۔ یہ جو کچھ ہوا ویسے تو یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ابھی تو ہمارے معاشرے کو انسان بننے اور انصاف کرنے میں میلوں کا سفر درکار ہے۔ پاکستان کے گنے چنے پڑھے لکھے لوگوں نے مسلم کرسچن رابطہ کمیٹیاں بنائیں بھلے وہ یورپی یونین کو دکھانے کے لیے ہی سہی چلو کچھ تو ہوا۔ جب پاکستان کے بڑے بڑے علماء نے غیرمسلم بالخصوص مسیحیوں کے اجتماعات میں بطور مہمان خاص شرکت کرنا شروع کیا تو عام آدمی نے بھی اُن کے دیکھا دیکھی ایک دوسرے کی بلارنگ و مذہب عزت کرنا شروع کردی۔
پس یہ سلسلہ پچھلی تین دہائیوں سے جاری تھا۔یہ مذہبی ہم آہنگی کے بہانے ایک دوسرے کی دعوتوں (ویسے تو یکطرفہ ہی ہوتی ہیں) پر لاکھوں کروڑوں خرچ ہوئے تاکہ میڈیا کے ذریعے بیرون ممالک کو بتا یا جا سکے کہ پاکستان میں ہر شہری کو عزت اور تکریم سے رکھا جاتا ہے اور اقلیتں پاکستان میں آزادی سے رہتی ہے۔ اس سے عام آدمی بھی کچھ کچھ سمجھنے لگے لیکن چونکہ ایسے مذہبی آہنگی کے پروگرام زیادہ تر بڑے بڑے ہوٹلوں میں ہوتے ہیں جہاں عام آدمی کا داخلہ مشکل ہوتا بات گراس روٹ لیول تک نہیں پہنچ پاتی اگر پہنچ بھی جائے تو زیادہ تر اپنا اثر نہیں رکھتی کیونکہ اگر ایسا ہوتاتو اقلیتوں کی بستیا ں نہ جلتیں،گھرمسمار نہ ہوتے، بچیوں کا نکاح بالجبر نہ ہوتا۔
اس سارے سنیوریو میں مبینہ طور پر سکوارڈن لیڈر کامران مسیح کا کیا کردار ہے۔ اس کا کردار نہایت اہم ثابت ہوا ہے۔ ایک تو پچھلے زمانے سے لیکر اب تک وہ اعتماد جو بحیثت پاکستانی ہر غیرمسلم (اقلیت) کو ہونا چاہیے تھا بحال ہوا ہے۔ پاکستان کی اکثریت (مسلم پاکستانی) کی طرف سے کامران بشیر کی بطور ایک مسیحی قبولیت کی وجہ اقلیتوں میں پاکستانی ہونے کا جذبہ اور اعتماد میں بے پناہ اضافحہ ہوا ہے۔ پہلی دفعہ جب مسلم برادری نے کھل کر حمایت کی ہے توا س سے مسیحوں اور مسلمانو ں میں محبت اور اعتماد کی فضاء پید اہوئی۔ اقلیتیں پہلے بھی پاکستان پر اپنی جان فد ا کرتی تھیں لیکن اس واقعہ نے تو پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنا اپنا سمجھنا شروع کیا ہے۔ کیونکہ پاکستان کو پیار کرنا اور پاکستان میں رہنے والوں کو پیار کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ جو کام ملک کی سرکاری اورغیرسرکاری تنظیمیں کروڑوں روپے لگا کر نہیں کرپائیں اس جنگ میں وائرل ہونے والی ایک خبر نے کر دیا ہے لوگ اب کامران کو صرف مسیحوں کا نہیں بلکہ پاکستان کا ھیرو کہہ رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ وہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے مطابق صرف اور صرف پاکستانی ہو کر سوچ رہے ہیں۔ اس ایک خبر نے ہجوم کو قوم بنا دیا ہے بھلے ہم سب کے مذاہب اور عقیدے مختلف ہی سہی پر ملک تو ایک ہی ہے ہم سب کا پیار ا وطن۔ پاکستان پائندہ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading