شادی ایک ذمہ داری

 

تحریر: آصف امین

شادی محض دو افراد کا ملاپ نہیں، بلکہ دو خاندانوں کے مابین ایسا پائیدار رشتہ ہے جو نسلوں کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ رشتہ وقتی تسکین یا معاشرتی دباؤ کے تحت نہیں، بلکہ شعور، فہم، اور رضامندی کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ جب رشتہ شعور سے جڑتا ہے تو وہ صرف دو افراد کو نہیں، دو معاشروں کو جوڑتا ہے۔

نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کو اسلام نے جو اہمیت دی ہے، وہ محض ایک فکری یا اخلاقی بات نہیں، بلکہ ایک مضبوط اور پرامن ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔ جہاں مرضی شامل نہ ہو، وہاں رشتے نہ صرف بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ زندگیوں کو بھی کچل دیتے ہیں۔ شادی کو ایک ذمہ داری کے طور پر لینا ہوگا، نہ کہ کسی سماجی مجبوری کے طور پر۔

ماں باپ کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی شادیاں وقت پر ہوں، مگر وقت کا تعین عمر سے زیادہ ذہنی بلوغت اور معاشی خودمختاری سے ہونا چاہیے۔ لڑکا جب تعلیم مکمل کر لے یا کمانے کے قابل ہو جائے، اور بیٹی جب گھریلو معاملات سنبھالنے کی سوجھ بوجھ حاصل کر لے، تب ہی شادی کا فیصلہ موزوں ہوتا ہے۔

قانونی طور پر بھی آج کے دور میں اٹھارہ سال کی عمر کو شعور اور ذمہ داری کی عمومی حد مانا گیا ہے۔ قومی شناختی کارڈ سے لے کر ڈرائیونگ لائسنس تک، ہر جگہ یہی عمر معیار ہے۔ اسلام آباد میں نافذ العمل قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بچپن کی شادیوں کی حوصلہ شکنی اور بچوں کو تعلیم، تربیت، اور شعوری پختگی کے مواقع دینا ہے۔

بلوغت کا مطلب صرف جسمانی تبدیلی نہیں، بلکہ شعور اور فیصلہ سازی کی مکمل صلاحیت بھی ہے۔ یہ کہنا کہ بلوغت کی عمر کا تعین ریاست کا اختیار نہیں، ایک مذہبی رائے ہو سکتی ہے، مگر ایک مہذب معاشرے میں جہاں ہر دن نئے چیلنجز جنم لیتے ہیں، وہاں شعور اور تحفظ کی ضمانت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم واقعی یہ چاہیں گے کہ ہماری بیٹیاں یا بیٹے سولہ یا سترہ سال کی ناپختہ عمر میں زندگی بھر کا بوجھ اٹھانے نکلیں؟

اکثر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اگر کم عمری میں شادی منع ہو تو نوجوان زنا یا ریپ جیسے جرائم میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جن کی شادی اٹھارہ سال کے بعد ہوئی، وہ سب قبل از نکاح کسی گناہ میں مبتلا تھے؟ نہیں! دراصل مسئلہ عمر کا نہیں، تربیت اور شعور کا ہے۔

شادی کا فیصلہ جذبات کی رو میں نہیں، بلکہ شعور، فہم، اور ذمہ داری کے شعور کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اسے ایک رسم، ایک مجبوری یا محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے، تب تک اس سے جڑے مسائل بھی گھمبیر تر ہوتے جائیں گے۔

آیئے! شادی کو وہ تقدس دیں جس کی یہ حق دار ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی رضامندی کو مقدم جانیں، ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں، اور ان کی عمر نہیں بلکہ شعور کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہیں اس بندھن میں باندھیں۔ یہی طرزِ فکر ایک مہذب، مضبوط اور محفوظ معاشرے کی ضمانت بن سکتا ہے۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading