فیصل آباد این اے 98 پی پی 104 اور پی پی 105 ایک سیاسی تجزیہ

 

تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ

سمندری پاکستان مسلم لیگ ن کے این 98 پی پی 104اور پی پی 105 وہ سیاسی حلقے ہیں جن میں ہمیشہ مسلم لیگ ن ہی کی جیت رہی ہے کیونکہ یہ حلقے میاں محمد نواز شریف سے محبت کرتے ہیں اور یہ نشستیں ہمیشہ میاں صاحب کی امانت مسلم لیگ کی طرف سے سمجھ کر انکو دی جاتی ہیں اس میں پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی محنت لگن اور قربانیوں کو ہم فراموش نہیں کر سکتے پچھلی 3 دہائیوں سے مسلم لیگ ن کے ٹریک ریکارڈ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پی پی پی صرف ایک دفعہ ایم پی اے کی نشست پر رانا فاروق سعید اس پلیٹ فارم سے ایک دفعہ جیتے اور بعد ازاں آزاد حیثیت میں جب پیپلز پارٹی نے انہیں ٹکٹ جاری نہ کیا میاں صاحب کی جلا وطنی کے دور میں وہ دونوں نشستیں جیتے باقی تمام نشستیں ہمیشہ پاکستان مسلم لیگ نےلگا تار جیتی ہیں اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں اسی ہی حلقے سے معروف سیاستدان اور سمندری کے بابائے سیاست تقریباً 43 سال سے مسلم لیگ کی شخصیات میں سے ایک اہم پبلک Figure کی سیاسی حکمت عملی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ شخصیت چوہدری مظہر علی گل کی ہے جو گزشتہ دنوں خداوند کو پیاری ہو گئی سمندری کے حلقوں کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی کارکنوں کو الیکشن کی جیت کے بعد ورکرز کو نظر انداز کرنا ہے جب سیاستدانوں کو ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے ووٹ چاہیئے ہوتے ہیں تو ورکرز کی چند روزہ عزت اور پوچھ گیچھ ہوتی ہےان سے رابطہ بہت اچھا رہتا ہے اور جب الیکشن گزر جاتا ہے تو ترقیاتی پالیسی اور سکیموں کے حوالے سے ان کو دور دور تک بھی ہوا نہیں لگنے نہیں دی جاتی اور برادری ازم اور اقربا پروری اور چاہ پلوسوں سے انکے رابطے بڑھ جاتے ہیں اور ورکرز بہت پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

مجھے ایک ادنی’ پارٹی کارکن ہوتے ہوئے اس وقت بڑا دکھ ہوا کہ محترم شہباز بابر سابقہ ایم این اے پارلیمانی سیکرٹری نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے سمندری میں مسلم لیگ ن کیلئے میجر اکرم ریٹائرڈ اور حافظ سعید بھلر کا اعلان کیا اور اقلیتی برادری جن کا 50 ہزار ووٹ ہے انہیں پوچھا بھی نہ کہ کوئی اقلیتی راہنما بھی یہاں سے اقلیتی نشست کیلئے امیدوار ہو سکتا ہے حالانکہ راو کاشف رحیم اور صفدر رحمان نے اس سلسلے کو یاد رکھا اور انکی ایسی ہمدردیاں اقلیتوں کے ساتھ تھیں ہم انکے شکر گزار ہیں۔

چوہدری عارف محمود گل اور راو کاشف رحیم کو ن لیگ سے کمزور کرنے کی پی پی104 اور 105 سے انتہا کی کوشش گئی لیکن رانا ثنا اللہ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف سمیت انکےفیصلے کو ہم راو کاشف رحیم اور چوہدری عارف محمود گل کو ٹکٹ جاری کرنا ایک اچھا فیصلہ ہے اس فیصلے کے آنے تک جن سیاسی شخصیات کا جو مالی اور وقت کا نقصان دانستہ طور پر مسلم لیگ کے مخلص راہنماوں کا ہوا یہ اچھی روایت نہیں ہے اس میں راقم الحروف بھی بطور ایم پی اے ایم این اے امیدوار اقلیتی نشست بھی شامل ہیں جو مذکورہ حلقوں میں مسلم لیگی راہنماوں کے باہمی تناو اور افراتفری کے ماحول میں ہم کسی کی بھی حمایت نہ لے سکے کیونکہ حلقے کے ہاہمی تناو میں اپنے حلقے کے اقلیتوں کی بات اعلی’ قیادت سے کون کرے گا؟

پچھلی 80 اور 90 کی دہائیوں میں اقلیتی ایم پی اے اور ایم این اے کی نشتیں ہماری خوشپور سے رہی ہیں اب مسلم لیگ نون ہمارے امیدواروں کو اپنے اس حلقے سے ساتھ لے کر چل ہی نہیں رہی جس کانقصان ہماری اقلیتوں کو ہمارے حلقے کو بہت زیادہ ہو رہا ہے۔

میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں اقلیتوں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کی ٹھان لی ہے وہ پارلیمانی بورڈ اور پاکستانی اقلیتوں سے اپنے خطاب میں اسی سلسلے کا اظہار کر چکے ہیں میاں محمد نواز شریف اور محترمہ مریم نواز نے بعد ازاں میری تازہ ترین شائع ہونے والی کتاب”امید سے یقین تک“ پر اپنے ایک خط میں انہوں نے میری سیاسی جدو جہد کاوشوں اور قلمکاری کے کام کو بھی سراہا ہے اب میرے حلقے کی مسلم لیگ کو قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی خواہشات کا احترام بھی کرنا ہے کہ اقلیتوں سے حسن سلوک میں انکے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوں ووٹ اقلیتوں کا ہو یا مسلم کمیونٹی کا حق بھی برابر کا ہونا چاہئیے اور احترام بھی۔ اقلیتوں خصوصی طور پر مسیحیوں کی تحریک پاکستان کے قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انکےکاسٹنگ ووٹ سے ہی پنجاب پاکستان کا حصہ بنا اور قرار داد متحدہ ہندو ستان میں منظور ہوئی۔ اس لئے میاں محمد نواز شریف کی منشا کے تحت اقلیتوں کو ہمارے حلقے میں بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading