پاکستان کی اقلیتوں کی سیاسی قحط الرجالی اور سیاسی اشرفیہ کی بے حسی کی وجوہات

 

تحریر: اعظم معراج

پاکستان کی سیاسی ،ریاستی، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے حقوق کے کوشاں خواتین و حضرات کے کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ ۔۔پچھلے 78سال میں 15انتحابات میں 6بار پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر 3انتحابی نظاموں کے تجربات کئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کبھی بھی غیر مسلم شہریوں کی اکثریت ان نظاموں سے مطمئن نہ ہوئی وجہ یہ شائد یہ رہی کہ متاثرین و ذمدارین نے کبھی بھی اس مسلئے کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا ۔۔جیسے 1909سے 1946 تک کے حکمران و اس وقت کے اقلیتی راہنماہ اس مسلئے پر محنت سے لالحہ عمل بناتے رہے۔۔ ان نظاموں میں کبھی مخلوط طریقہ انتخاب کے نام سے مذہبی شناخت پر بانجھ پن ملا ،تو کبھی جداگانہ طریقہ انتحاب کے نام پر سیاسی شودر و معاشرتی اچھوت بنا دیا گیا موجودہ متناسب نمائندگی طریقہ انتحاب میں اچھوت پن ہٹا تو جمہوری غلامی کا ایسا کلچر پروان چڑھا کہ خدا کی پناہ۔۔۔ان تینوں نظاموں میں کیا ،کیا خامیاں اور خوبیاں تھیں۔انکی روشنی میں تحریک شناخت نے تین نکات پر مبنی مطالبہ و لالحہ عمل تیار کیا گیاہے ۔ جو کہ پاکستان کے معروضی سیاسی ؤ معاشرتی حالات کے مطابق ہے ۔لیکن 10 سال کی مسلسل محنت سے چلائی گئی آگاہی مہم کے نتائج وہ نہیں جو ہونے چاہیئے تھے۔۔ ۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد 90 لاکھ ہے۔جنکے ووٹوں کی تعداد موجودہ الیکشن میں 45 لاکھ ہوگی ۔۔ یہ آبادی و ووٹرز پاکستان بھر کے 859 حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہندؤ آبادی کی شیڈول کاسٹ اور ہندؤ جاتی میں فاصلے ،مسحیو کے باشعور لوگوں کی سماجی سیاسی و مذیبی روزگار سے وابستگی کی بناء پر یہ کوئی بڑا سیاسی پریشر گروپ کبھی نہیں بن سکے لیکن اس کے باوجود یہ ووٹرز پنجاب اور سندھ کے 20قومی اور 50,کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں بس مدّعا کوئی سیاسی جماعت کامن گراؤنڈ والا چھیڑے ۔ ایسا آج تک ہؤا نہیں جبکہ حکمران۔ اشرافیہ ایک نشست کے لئے ماری پھرتی ہے لیکن اقلیتوں کو نہیں پوچھتے ۔۔۔اس قحط الرجالی و بے حسی کی وجوہات اقلیتی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے ضلع لاہور کو ماڈل بنا کر اعداد شمار اور مسیحی سماجی سیاسی و مذہبی ورکروں/راہنماؤں کے رویوں سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ضلع لاہور میں 30اگست 2022کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 352606ووٹرز ہیں ۔

جن میں 336139 مسیحی 18088قادیانی 1128بہائی93ہندو 83سکھ61پارسی 12بدھسٹ ہیں ۔۔ لاہور کی سات تحصیلوں میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد کچھ یوں ہے لاہور کینٹمومنٹ 17989 لاہور کینٹ 23548لاہور سٹی 77381ماڈل ٹاؤن 123736رائیونڈ 25027 والٹن کینٹ 40518 ہے ۔ پاکستان میں آبادی سے ووٹوں کا تناسب تقریبا پچاس پچاس ہے ۔اس حساب سے یہ آبادی تقریبا سات لاکھ ہونی چاہیے جو اب 2024کے ان انتحابات تک یقیناً بڑھ کر 8 لاکھ ہو چکی ہوگی۔۔ اور ووٹرز تقریبا 4 لاکھ ہو چکے ہونگے ۔ اس میں 95 فیصد آبادی مسیحوں کی ہے ۔ جنکے لاکھوں نہیں تو ہزاروں مذہبی، سیاسی ؤ سماجی ورکر جن میں سے ہر کوئی راہنمایی جیسے عظیم منصب کا دعویدار ہے ۔ یہ سب اس شہر میں بستے ہیں ۔۔ انکے سینکڑوں ہزاروں ادارے بھی ہیں ۔ گوکہ تحریک شناخت کا کوئی انتحابی سیاسی ایجنڈا یا مذہبی ایجنڈا نہیں، اور یہ کوئی این جی او بھی نہیں ۔۔یہ فکری تحریک بغیر کسی انتظامی ڈھانچے کے اپنا پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء دنیا بھر کی اقلیتوں میں پھیلا رہی ہے ۔۔لیکن تحریک شناخت کے ذمدار اس بات پر متفق ہیں ۔کہ ایک ایساانصاف پر مبنی شفاف انتحابی نظام جس میں مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والے خواتین و حضرات انھی کے ووٹوں سے منتخب ہوں، جن کی شناخت پر وہ یہ نمائندگی حاصل کرتے ہیں ۔۔ایسا انتحاہی نظام پاکستان کی اقلیتوں کے سماجی معاشرتی وسیاسی 80 فیصد مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔کہ یہ بات تحریک شناخت کے رضا کار انتحائی منظم طریقے سے ذمدارین آور متاثرین تک بطور ایک فکر و فلسفہ پہنچا رہے ہیں۔۔ حیران کن بات یہ ہے، کہ لاہور کی چودہ ( 14)میں سے کئی سیٹوں پر وطن عزیز کے سابقہ ،موجودہ، مستقبل بلکہ جماندروں حکمران خاندانوں کے افراد و انکے رفقاء الیکشن لڑ رہےہیں ۔۔ ان نشستوں پر اقلیتوں خصوصاً مسیحو کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے ۔۔لیکن یہ بات حیران کن ہے ۔کہ آج تک کےمشاہدے و غیر مصدقہ تحقیق کے مطابق 90فیصد غیر مسلم پاکستانی موجودہ انتحاہی نظام سے شاقی و بے چین ہونے کے باوجود حکمران طبقات سے اتنی سی بات کیوں نہیں کہلوا سکے کہ “ہم اقتدار میں اکر اقلیتوں کے 76سالہ اس مسلئے کا ایسا حل آئینی ترمیم کے زریعے نکالیں گے، جس میں انکی مذہبی شناخت والے نمائندے بھی ان کے حلقے والے نمائندوں کی طرح انکے ووٹوں سے منتخب ہوں۔ “

اسکی بظاہر جو وجہ سمجھ میں آتی ہے ۔۔کہ تیسری دنیا کہ غریب ملکوں کی طرح پاکستان اور خصوصاً مسیحو کی نمائندگی بھی چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔۔جن میں سیاسی سماجی ومذہبی ورکروں/رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے ۔یہ افراد پاکستانی مسیحی سماج کے ایک خاص پس منظر کی بدولت چند نیک نیت استشعنات چھوڑ کر ان نمائندگان کے رویئے اول موجودہ نظام کی بدولت جمہوری غلاموں ،دوئم محرومیوں کے سوداگروں ،سوئم مزہب کے روزگار سے وابستہ افراد والے ہیں ۔یہ افراد انکے ادارے اور انکے رفقاء کار باقی نوے فیصد لوگوں کی رائے عامہ پر حاوی ہیں۔جس کی ہزاروں وجوہات ہیں ۔۔ یہ تینوں طرح کے مسیحی زعماء مبینہ طور پر اپنے بہت معمولی، معمولی مفادات کی وجہ سے عام لوگوں اور حکمرانوں کے درمیان پل بننے کی بجائے دیوار بنے ہوئےہیں ۔۔ اسکی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے, کہ دنیا میں سماج سیاسی ،سماجی و مذہبی ورکر بدلتے ہیں ۔۔لیکن پاکستانی مسیحی سماج میں ان تینوں قسم کے خواتین و حضرات کی بہتات ہونے کے باوجود نتیجہ صرفِ یہ ہے ،کہ ہر نوجوان ان شعبوں کو بطورِ ایک پرکشش پیشے کے اپنا رہا ہے ۔۔جس سے سماج و معاشرے پر اس کے اثرات مثبت کی بجائے انتحائی منفی پڑ رہے ہیں ۔۔ لیکِن یہ بات طے ہے کہ مال پیٹ خواتین حضرات کو حکمران سیاسی اشرفیہ جتنے مرضی پیسے دے لے جتنے مثبت اثراتِ اس مسلئے کے حل کا عندیہ دینے سے مل سکتے ہیں ۔وہ اور کسی طریقے سے نہیں مل سکتے ۔

By admin

Related Post

One thought on “پاکستان کی اقلیتوں کی سیاسی قحط الرجالی اور سیاسی اشرفیہ کی بے حسی کی وجوہات”
  1. محترم اعظم معراج صاحب آپ نے اقلیتوں اور خصوصاً مسیحی قحط الرجالی تو گنوا دی مگر اس موثر انتخابی طریقہ کار کا ذکر نہیں کیا کہ جس کے تحت اقلیتوں کو بہتر نمائیندگی دی جاۓ۔ اگر آپ اس طریقہء کار کی نشاندھی کردیں تو بہت عنایت ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading