سیکنڈ لائین لیڈر شپ کے بکھیڑے اور سینٹر کامران مائیکل کی رخصتی

 

تحریر:گمیلی ایل ڈوگرہ

پاکستانی سیاست میں اقلیتوں کے سیاسی حلقوں کی اندرونی صفحوں میں اضطراب انتشار خود غرضی اور بے ضمیری کی جنگ جداگانہ الیکشنز کے ساتھ ہی نمایاں طور پر شروع ہوگئی قومیں اتحاد اتفاق یا یونٹی سے حقوق حاصل کرتی ہیں پلیٹ میں رکھ کر حقوق کسی بھی کمیونٹی کو کبھی بھی نہیں دئے گئے۔ آج مخلوط طرز انتخاب کا خاتمہ اور جداگانہ الیکشن کا رائج کیا جانا آبادی میں لاکھوں لوگوں کو شامل نہ کرنا جبری تبدیلئ مذہب تعصب اور عدم برداشت پر اقلیتوں کا قتل کیا جانا مسیحیوں کے چرچوں اور گھروں کا گھیراو جلاو معمولات زندگی بن چکا ہے جبکہ ان مشکلوں پر سیاست اور سیاست کرنے والے اقلیتی نمائیندگان ہمیں مہنگے پڑھ گئے ہیں اگر کبھی موقع ملتا ہے تو ہمیں انہیں عوامی کٹہروں پر کھڑا کرنے کی بھی ہم میں ہمت ہونا چاہئیے۔

مجھے سیاسی سماجی روحانی و مذہبی شخصیات کے علاوہ لکھاریوں کالم نگاروں ریسیرچ رائیٹرز کو پڑھنے اور سننے کا شوق ہے تاکہ وہ اپنے اپنے فلسفے کے تحت اپنی کمیونٹی کیلئے کس انداز سے سوچتے ہیں؟ ان حالات میں قوموں کو قلم سیاست مذہب کی خدمت اور انکے پلیٹ فارمز سے کس طرح وہ آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اس good will کی تہہ تک پہنچنے کی جدوجہد پر غور وفکر کے ساتھ تحریر و تقریر میرے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔

میں نےمخلوط انتخابات کے رائج ہونے کے ساتھ اوائل میں سینٹر کامران مائیکل اور سابقہ وفاقی منسٹر شہباز بھٹی کو بڑی قربت سے دیکھا ہے۔ جن کے ساتھ انکے حقیقی جانشینوں نے ہی ان کا تماشا دیکھا اور انکی جگ ہنسائی کی ہے۔ شہباز بھٹی کے قریبی جاننشیںنوں کی لڑائی اس کی شہادت کے بعد شروع ہوئی جس کے انجام کو آپ سب نے دیکھا جبکہ کامران مائیکل صاحب کے جیتے جی آپ دیکھ رہے ہیں۔

شہباز بھٹی کی سیاست طویل جدوجہد کا نتیجہ تھی جبکہ کامران مائیکل کی سیاست ایک حادثاتی تناظر میں نظر آئی لیکن دونوں کا انجام ایک جیسا ہوا کیا قوم غلط ہے؟ کیا ہمارے دونوں اکابرین غلط ہیں؟ اگر ان کا موازنہ کریں تو اس گفتگو سے کھنگال کر ہم اپنے مستقل کو دیکھ سکیں گے۔

میرے ساتھ آپ اتفاق کریں یا اختلاف لیکن سچ کا کھوج سانجھا ہونا چاہییے۔ تاکہ اقلیتوں کی بہتری کے راستے میں ہم سب کا حصہ بخرہ ہو۔

شہباز بھٹی کے نمایاں جانشینوں نے اس کے فلسفے کو عوامی سطح پر apply کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جانشینوں کی یونٹی نہ ہونے سے ناکامی ہی نظر آ رہی ہے اور اس پر رائے عامہ اکثریت سے ہموار ہونا ناگزیر نظر آرہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز بھٹی کے فلسفے کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا جبکہ کل وہ پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کے ممبر تھے۔

جبکہ دوسری جانب کامران مائیکل صاحب کی حادثاتی سیاست تو خیر عوامی سطح پر اقلیتوں پر اپلائی ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ انکی اہمیت پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ بھر پور رہی لیکن پارٹی نے ان پر اندھے اعتماد نے وقت کے ساتھ ساتھ پارٹی پالیسی کے ساتھ کٹھن حالات میں انکے اختلافی فیصلے کے نتیجے میں وہ اپنے آپکو سیاسی حوالے سے لے ڈوبے اور پارٹی سے وفاداری کے حوالے سے ان پر آنچ یا کمزوری ضرور آئی اور اسی صورت حال کی پارٹی کے ساتھ آنکھ مچولی کی صورت حال میں انکے جاننشین ان سے آگے نکل گئے۔

ہمارے دونوں مذکورہ اکابرین نے اپنی سیکنڈ لائین لیڈر شپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھا تھا کہ انکو پاوں پر کھڑا کریں یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی شارٹ کٹ کا فائدہ اٹھا کر سامنے آگئے۔

جس کی مثالیں بابا فیلبوس عمانوایل اطہر خلیل طاہر سندھو جبکہ دوسری جانب نوید عامر جیوہ وغیرہ وغیرہ ہیں- مسلسل 22/23 سال اقتدار کے جھولوں کو جھولنے کے بعد انسان اپنی جاننشینی کی فکر میں سیکنڈ لائین لیڈروں کے ٹیلنٹ کی فکر میں ہونا چاہئیے جبکہ شہباز بھٹی شہید اور کامران مائیکل سولو فلائیٹ سیاست 3 دہائیوں سے کرتے نظر آئے لیکن اب اس شہر کی آب و ہوا تو تبدیل ہو چکی ہے اس کا ایک منطقی انجام تو ہونا ہی تھا۔

کامران مائیکل کی فعل حال سیاست اقلیتی حلقوں میں چہ مگوئیوں کا منفی تاثر ایک مفروضہ یا مبالغہ ارائی بھی ہوسکتی ہے لیکن اقلیتوں میں انکے دور کے فیصلے یقینناً انکے سیاسی باب کا حصہ رہیں گےاور مثبت و منفی تاثرات کا وسیلہ بھی۔

سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے نئے سیاسی چہروں کو باخبر ہونے کی ضرورت ہے اور انکے لئے شعر کہ

یہ نہ ہو طوفاں بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے

بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading