کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

 

تحریر: عمانویل اقبال

   (قسط1)

14 مارچ کی شام کچھ عجیب سی تھی۔ پُراسرار سی۔ چپ چاپ سی۔ دل کہہ رہا تھا کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟ کچھ خبر نہ تھی۔

میں حسبِ معمول شام سات بجے کے بعد گھر پہنچ گیا۔ قریب ہی دو گلیاں چھوڑ کر چھوٹے بھائی کا گھر ہے۔ ماں کو ملنے بچّوں کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس سے پہلے ہی میری بیوی رات کا کھانا تیار کر چکی تھی۔ ہم تقریباً ایک گھنٹا اس کے گھر بیٹھے، چائے پی اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ قریب 9 بجے واپس گھر آگئے۔

صبح اتوار تھا جس کے لیے کچھ خاص تیاری کرنا پڑتی تھی۔ دس بجے چرچ سروس کا آغاز ہو جاتا تھا اور اس سے پہلے ہمیں چرچ پہنچنا ہوتا تھا۔ چرچ میرے گھر کی پچھلی طرف تقریباً پانچ منٹ کے پیدل سفر کے فاصلے پر ہے۔ میری بیوی کا چھوٹا بھائی شکیل چرچ کا بڑا پادری ہے۔ ہفتے کی رات چرچ میں بھی کچھ خاص تیاریاں کی جاتی ہیں۔ چرچ کی بلڈنگ ابھی باقاعدہ تیار نہیں ہوئی۔ فائبر گلاس کی چھت ہے۔ سامنے، پچھلی طرف اور دائیں طرف کی دیواریں تعمیر ہو چکی ہیں جبکہ بائیں طرف دیوار بالکل نہیں ہے۔ چونکہ مارچ کا مہینہ ہے اور ابھی سردی خاصی ہے تو دیواروں پر ترپالیں لگا کر ہوا کو روکنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ صفائی، کرسیاں لگانا، دریاں، قالین بچھانا، سٹیج تیار کرنا اور ترپالیں وغیرہ لگانے کا کام ہفتے کی رات کو ہی مکمّل کر لیا جاتا ہے۔ چرچ کے کچھ رضاکار لڑکے رات وہیں گزارتے ہیں۔

14مارچ ہفتے کی رات کو پادری شکیل کا بیٹا سولومن (مانی) بھی آیا ہوا تھا۔ مانی اور میرا بیٹا قیس کزن اور ہم عمر ہونے کے ساتھ اچھے دوست بھی ہیں۔ کھانا کھا کر ہم کچھ دیر ٹی وی دیکھتے رہے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں اور میری بیوی سونے کے لیے لیٹ گئے۔ مانی اور میرے دونوں بیٹے، قیس اور سارنگ، چرچ پر کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے چلے گئے۔

جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں 14 مارچ کی شام اور رات کچھ عجیب سی تھی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آ رہا تھا۔ بچّے خوش تھے۔ ہنس کھیل رہے تھے۔ آپس میں مذاق کر رہے تھے۔ لیکن پھر بھی مجھے پتا نہیں کیوں رات خاموش سی لگ رہی تھی۔ میں زیادہ سے زیادہ 45منٹ سو سکا اور میری آنکھ کھل گئی۔ واش روم گیا۔ واپس آ کر سونے کی کوشش کی لیکن نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ وہی کچھ ہونے کا ڈر…. میں نے ٹی وی آن کیا۔ کچھ دیر ریموٹ سے مختلف ٹی وی چینلز تبدیل کرتا رہا۔ کبھی کوئی نیوز چینل، کبھی انٹرٹینمنٹ، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ جب ٹی وی میں بھی دل نہ لگا تو میں اٹھ کر کمپیوٹر والے کمرے میں آ گیا۔ کمپیوٹر سٹارٹ کر لیا اور فیس بک وغیرہ میں خود کو مصروف کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دل وہاں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اس وقت تک کافی وقت گزر چکا تھا۔ کتنا ….یہ مجھے اندازہ نہ تھا۔ بیوی سو رہی تھی اور بچّے چرچ میں تھے۔ گھر میں مکمّل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گلی میں سے کبھی کبھار کسی موٹر سائیکل کے گزرنے کی یا گلی کے کسی آوارہ کتّے کے بھونکنے کی آواز آتی اور پھر وہی خاموشی۔ خاموشی دونوں طرف تھی۔ اندر بھی اور باہر بھی۔ میں نے اٹھ کر اپنے لیے چائے بنائی اور کپ لے کر واپس کمپیوٹر والے کمرے میں آگیا۔

مجھے یاد آیا میرے کمپیوٹر میں ہندوستانی فلم ”پی کے“ (PK) پڑی ہوئی تھی۔ یہ ہندوستانی فلم دو تین ماہ پہلے ریلیز ہوئی تھی اور ہر کوئی اس کی بہت تعریف کر رہا تھا لیکن میں نے ابھی تک نہ دیکھی تھی۔ میں نے سوچا: نیند آ نہیں رہی تو کیوں نہ فلم ہی دیکھی جائے۔ میں نے فلم سٹارٹ کی اور ہیڈفون کانوں کو لگا کر فلم میں تقریباً کھو گیا۔

فلم واقعی اچھی ہے۔ موضوعاتی ہے۔ انٹرٹینمنٹ بھی ہے اس میں۔ مکالمے زبردست ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عامر خان ایک بہت اچھے اداکار ہیں۔ بہت جاندار اداکاری کی ہے اس فلم میں انھوں نے۔ ”پی کے“ فلم میں عامر خان کو غیرارضی مخلوق کے ایک خلا باز کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو تحقیق کی غرض سے اپنے سیّارے سے زمین پر اُترتا ہے۔ زمین پر آنے کے بعد وہ زمین کی منافقت پر اپنے معصومانہ انداز سے سوال پر سوال اُٹھاتا جاتا ہے۔ اپنے سیّارے سے زمین پر آنے کے بعد اُس کے گلے میں موجود لاکٹ ایک راجھستانی اُڑا لے جاتا ہے اور وہ اسے ایک ہندو پنڈت کو بیچ دیتا ہے۔ دراصل یہ لاکٹ عامر خان کے واپس خلا میں جانے کا ریموٹ ہے۔ یہاں عامر خان کی ملاقات سنجے دت (بھیرن سنگھ) سے ہوتی ہے۔ پی کے (عامرخان) کیسے بھیرن سنگھ سے ملتا ہے اور کیسے ان کی زبان سیکھتا ہے؟ یہ سب کافی دلچسپ ہے۔ فلم میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ معاشرتی پس منظر پر بنائی گئی فلم ہے جہاں پر ہر مذہب کے نام پر لوگوں نے اپنی دکانیں کھول رکھّی ہیں۔

اس نے قدم قدم پر یہی سوال اٹھائے ہیں کہ کیا خدا سے کچھ مانگنے کے لیے مذہبی لوگوں کی اجازت ضروری ہے؟ کیا خدا اتنا ہی کمزور ہے کہ جب تک پتّھر سامنے نہ ہو ، گلّے (چندے والا ڈبّہ) میں چار پیسے نہ ڈال دیں، گلے میں کراس نہ لٹکا لیں اور اُ س کے ماننے والے لوگوں کو خوش نہ کر دیں تو وہ نہیں سنے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔

میں فلم میں تقریباً کھویا ہوا تھا۔ ہیڈفون کانوں کو لگائے کرسی پربیٹھاتھا۔ ارد گرد مکمّل خاموشی تھی۔ تین یا ساڑھے تین بجے میرے دونوں بیٹے اور مانی چرچ سے واپس لوٹے۔ باہر کے گیٹ کی چابی ان کے پاس تھی، وہ کھول کر اندر آ گئے۔ وہ ضد کرنے لگے کہ وہ بھی فلم دیکھیں گے۔ میں نے ان کو یہ کہہ کر سو جانے کے لیے کہا کہ فلم آدھی سے زیادہ چل چکی ہے، ان کو دیکھنے کا خاک بھی مزہ نہ آئے گا، اس لیے سو جاﺅ۔ پھر کبھی شروع سے دیکھ لینا۔ ویسے بھی وہ اس سے پہلے یہ فلم دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے میری بات مان لی اور سونے کے لیے چلے گئے۔ میں کچن میں گیا، ایک کپ گرم گرم چائے کا بنایا اور دوبارہ فلم دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔

تقریباً ساڑھے چار بجے فلم ختم ہوگئی لیکن میری آنکھوں میں اب بھی نیند کا نام ونشان نہ تھا۔ ایک بار پھر کچن کا رخ کیا اور چائے بنا کر پی۔ اس دوران میں ساڑھے پانچ ہو گئے۔ مجھے پتا تھا اب سویا تو صبح 9 بجے مشکل سے ہی اٹھوں گا۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو ہدایت کر دی کہ میں صبح چرچ نہیں جاﺅں گا، اس لیے مجھے جگایا نہ جائے، بچّوں کو لے کر خود ہی چلی جانا۔

میں گہری نیند سو رہا تھا کہ یکدم میرے کانوں میں میری بیوی کی آواز گونجی: ”اٹھیں، آپ کو سونے کی پڑی ہے۔ آپ کو پتا نہیں باہر کیا قیامت برپا ہو گئی ہے۔“

میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا تو بیوی کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور بہت پریشان نظر آ رہی تھی اور شاید بھاگتی ہوئی گھر تک آئی تھی۔ اُس کا سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا۔ میں نے جلدی سے دریافت کیا: ”کیا ہوا ہے؟“

اس نے روتے ہوے بتایا: ”یوحناآباد میں چرچوں میں بم دھماکے ہوے ہیں اور فائرنگ کی آواز آ رہی ہے۔“ وہ ابھی تک رو رہی تھی۔

میں جلدی سے اُٹھا۔ واش روم میں گیا۔ جلدی جلدی منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور باہر آ گیا۔ میں نیکر پہن کے سو رہا تھا۔ جلدی سے اُس پر پینٹ چڑھائی۔ یکدم مجھے احساس ہوا میرے دونوں بیٹے میری بیوی کے ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے فکرمندی سے پوچھا: ”قیس اور سارنگ کہاں ہیں؟ کیا باقی لوگ خیریت سے ہیں چرچ میں؟“

میری بیوی نے جواب دیا: ”ہاں، سب خیریت سے ہیں۔ ہم سب چرچ میں جمع ہیں۔ قیس اور سارنگ بھی وہیں ہیں۔ جلدی چلو، ہم بھی وہیں جا رہے ہیں؟“

مجھے اچانک اپنی بہن کا خیال آیا جس کے تین جوان بیٹے تھے اور قریب ہی ایک گلی چھو ڑکر اس کا گھر تھا اور ساتھ ہی اپنے بھائی کا بھی جس کا گھر بھی تھوڑی دور تھا۔ میں نے جلدی سے موبائل پر اپنی بہن کا نمبر ملایا۔ اس کا نمبر نہیں ملا تو اپنے بڑے بھانجے کا نمبر ملایا۔ وہ خیریت سے تھے اور گھر پر ہی موجود تھے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی اپنے بچّے لے کر ان کے گھر آ گیا تھا۔

ہم نے جلدی سے گھر کو بند کیا اور باہر گلی میں نکل آئے۔ ابھی ہم گلی میں چرچ کو جانے والے راستے کی طرف مُڑے ہی تھے کہ آگے سے ایک خاتون، جس کا نام زرّیں تھا اور جو ہمارے چرچ کی ممبر تھی، ہمیں روتی ہوئی اور تیز تیز چلتی ہوئی ملی۔ ہم بھاگ کر اُس کی طرف گئے اور پوچھا کہ خیریت ہے۔ اُس نے اُونچی آواز میں روتے ہوے بتایا کیتھولک چرچ میں اُس کا بھائی اپنے بچّوں کے ساتھ اور اُس کی ماں اور اس کا بیٹا اور بیٹی بھی گئے ہوے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ غم اور فکرمندی سے نڈھال نظر آ رہی تھی۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ اکیلی جائے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: ”تم چرچ جاﺅ۔ میں زرّیں کے ساتھ جارہا ہوں۔ وہ کافی غمزدہ ہے۔“ یہ کہہ کر میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

اس دوران میں مجھے پتا چل چکا تھاکہ فائرنگ اور دھماکے قریبی دو چرچز میں ہوے تھے: کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ میں۔ دونوں چرچز میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اتوار کے روز عبادت کے لیے جاتی تھی۔ میں سمجھ سکتا تھاکہ ایسے مواقع پر کیا صورتِ حال ہوتی ہے۔ اکثر ٹی وی پر، اخباروں میں ایسے واقعات دیکھ چکا تھا۔ کچھ عرصہ قبل پشاور چرچ میں بھی عبادت کے اختتام پر دھماکا ہوا تھا جس سے بے انتہا تباہی پھیلی تھی۔ میں یہ سوچ کر کانپ گیا کہ یہ وقت بھی چرچز میں عبادت کے ختم ہونے کا تھا اور عبادت ختم ہونے کے وقت بے انتہا رش ہوتا تھا۔

ہم دونوں گلیوں میں چلے جارہے تھے۔ لوگ، جن کے پیارے ان دونوں چرچز میں سے کسی ایک چرچ میں گئے ہوے تھے، بھاگتے، روتے ہوے جا رہے تھے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کررہا تھا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اپنے پیاروں کی خبر لے۔

ہم راستے میں ہی تھے کہ زرّیں کے گھر سے فون کال آئی۔ اُس نے بے صبری سے موبائل فون اپنے کان سے لگا لیا۔ میں نے اُس کی روتی ہوئی آنکھوں میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی۔ وہ ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ میں درمیان میں بول پڑا: ”بہن جی، خیریت ہے نا سب؟“ اُس نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر اُس نے بتایا کہ اس کے بھائی کا شیرخوار بچّہ چونکہ تنگ کر رہا تھا اس لیے اُس کے گھر والے چرچ سے جلدی گھر چلے گئے تھے۔ یہ کہہ کر اس نے شکریہ کہا اور واپس چل دی۔

میں نے تقریباً بھاگنا شروع کر دیا۔ گھر سے کرائسٹ چرچ جانے کا راستہ پانچ یا سات منٹ کا ہوگا لیکن آج یہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ میرے بہت سے دوست دونوں چرچز میں ہر اتوار کی عبادت کے لیے جاتے تھے۔ میں جلد سے جلد معلوم کرنا چاہتاتھا آیاوہ سب خیریت سے ہیں یا نہیں۔ آس پاس ہر کوئی رو رہا تھا۔ غم سے نڈھال تھا۔ فکرمند تھا۔ عجیب پُراسرار سا ماحول تھا۔ لوگ یا تو خود میں کھوئے تھے یا موبائل فونوں میں۔ کسی کو آس پاس کی خبر نہ تھی۔ سب کے چہروں پر خوف، دہشت اور سراسیمگی تھی۔

لیکن یہ کون جانتا تھا ابھی اس سے بھی زیادہ پراسرار اور خوف زدہ کرنے والے دن آنے کو ہیں!

 (جاری ہے)

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading