تحریر: یوحناجان
آزادی کا فلسفہ ورثہ آدم جس کا صرف خطہ زمین پر اطلاق نہیں بلکہ ذہنی ، معاشرتی ، مذہبی اور انسانی رویوں کو بھی اعتماد میں لینے کا نام ہے۔ جو فرد کی آزادی سے شروع ہو کر ملک و قوم کی تک آزادی ایک ہی نعرہ بلند کرتا ہے۔ یہی شخصی عزت ، شخصی ایمان داری ، شخصی ہمدردی اور وفاداری میں جنم لے کر ملک و قوم کی بقاء کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی سے تحقیق و تالیف پروان چڑھ کر ماحول کو ساز گار اور آلودگی سے پاک کرکے کمالِ فن کا جادو ، علمی ذوق ، تعلیم کا ہنر اور حقیقی آزادی کا روپ عطا کرواتی ہے۔ جس کے بدلے دنیا کا نقشہ ایک عمدہ نمونہ بن جاتا ہے۔
ایک بہترین آزادی کا مفہوم فرد کی آزادی کا اعلان کرتا ہے۔ جو نہ صرف ذاتی بلکہ مجموعی فنِ آزادی کا نام ہے۔ جہاں پر ہر آدھے کلو میٹر پر ادب و تحقیق کی لائبریری ہونے کی بجائے دربار اور تعویز دھاگوں کا میلہ لگا ہو وہاں ملنگ پیدا کرنے کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ قیدو بند کی کڑی تقویت پاکر نبی رسول کو بھی کچھ نہ سمجھنے کا نظریہ پاتا ہے۔ وہاں پر نواز کے جلسے میں جانے سے براہ راست جنت کا ٹکٹ ملتا ہے۔ کسی مذہب ، عقیدہ اور کیسی ہی مالی استطاعت کا حامل ہو ساز گار ماحول پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق کسی بھی زاویہ سے آزادی سے نہیں ملتا۔ دھواں گاڑیاں ، فکیٹریاں اور آلودہ ذہن چھوڑ رہے ہیں مگر بند اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کو کیا جاتا ہے۔ فتور پڑھے لکھے جاہل پیدا کر رہے ہیں لیکن الزام بے گناہ اقلیتوں پر لگ رہے ہیں۔ اتنامذہب کے نام پر عمل نہیں جتنا نفرت و فساد برپا ہو چکا ہے تو پھر کیسی آزادی ؟ کیسا نظام ؟ کیسی رعایا؟ کیسی سرزمین ؟
عمل ہے نہ حد ، اعتدال ہے نہ قابو، خوف ہے نہ خوفِ خُدا ، سویٹر ہے نہ بُنیان ، عبادت نہ ایمان ، روٹی کپڑا نہ مکان صرف عورت کے جسم پر دھیان اور ہیرا منڈی کا پہلوان۔
ایک کُتا دریا کے پُل سے گزر رہا تھا جس کے منہ میں ہڈی تھی اُسےپانی میں اپناہی عکس نظر آیا۔ خیال آیا کہ یہ کوئی اور ہے اس سے یہ بھی لی جائے۔ تب اس نے بھونکنے کے لیے منہ کھولا تو جو موجود تھی اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
مجھے تو اپنے آباواجداد کی اس غلطی پر ندامت محسوس ہو رہی ہے جھنوں نے بٹوارہ کرتے وقت ایک دفعہ بھی نہ سوچا کہ کتنی بڑی سزا آنے والی نسل کو دیے جا رہے ہیں۔
اگر کرنا ہی تھا تو کم از کم ان کی اصلاح کرتے جاتے ۔ حرام ان کے منہ کو نہ لگاتے ، اتنی بڑی جاگیریں دینے کا مقصد کیا تھا، تم لوگوں نے ایک بار بھی غور نہ کیا؟
جہاں دولت ، پیسا اور جاگیریں اور عیاشی کا اڈا بنا کر جا رہے ہو وہاں لالچ تقویت پاتا ہے۔ عمل سے عاری نسل پیدا ہوتی ہے۔ جاہل اور نکما پن مقدر کا حصہ ہو کر مقدر کے سکندر بنا دیتا ہے۔ بے غیرتی گھر گھر کشکول لیے گھومتی ہے۔ جس کا فخر کوٹھے کا رُخ ہو جاتا ہے۔
پکاو حلوے تے کھاو حلوے کا ثواب و نعرہ گونجتا ہے۔ ان کے کردار سے نہ عبادت گاہ محفوظ نہ حوا کی بیٹی۔ باپ کا ورثہ نہ نبی کااُسوہ سب بے اثر و بے معانی ہوکر گلی میں آوارہ کُتے کا روپ دیتا ہے۔ وہی قومیں انقلاب کی جگہ سیلاب کا آنا عذاب نہیں ثواب قرار دیتی ہیں جو ان کے آئین کا رُکن بن جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہوں تو جہالت کو گلے لگانا معمول بن جاتا ہے۔ دودھ میں پانی ، نور کو بے نور کرنا زندہ مثال ہے۔ تو واجب ہے کہ ان کی زندگیوں میں ایسی بے نوری برپا ہوتی ہے کہ صرف منہ پہ داڑھی ہی نظر آتی ہے اندر کچھ نہیں۔ میں پھر کیوں نہ کہوں کہ کہاں وہ آزادی جو میرے رب نے مجھے آزاد پیدا کرکے دی تھی؟ ان جاگیرداروں اور ملک کے مفاد پرستوں نے سب بیچ دی ہے یا ریزہ ریزہ کر دی ؟
جاہلوں کی نگاہ اور وعدہ وفا ایسے خوبصورت انداز میں دیکھنے کو ملے کہ زندگی بھی منہ دیکھتی ہی رہ گئی کہ وہ کن کے ہاتھوں لگ گئی۔ اس ریاست کے دل ( لاہور ) کو بھی گندا کر ڈالا۔ اس بے چارے کو بھی دنیا کے گندا ترین ہونے اعلیٰ اعزاز دلوایا۔ اب تو اس کا اپنا سانس لینا محال ہو چکا ہے۔ اب تو دل ہے کہ مانتا ہی نہیں تو کیسے کہوں کہ میں آزاد ہوں ؟