تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
میں خیالات کی وادی میں گم تھا۔ اچانک میری آنکھوں کے سامنے ایک بستی کا منظر آ جاتا ہے۔ وہاں زمین گھاس کا لباس پہنے ہوئے تھی۔ وہاں معتدل درجہ حرارت تھا۔
ہر درخت اپنی فطرت اور لباس میں منفرد نظر آ رہا تھا۔
ہوا کے تھپیڑے پتوں میں سنسناہٹ کے گیت گا رہے تھے۔ کھیتوں میں سبزہ ، ہریالی اور انواع و اقسام کی سبزیاں اور پھل موسمی تغیر و تبدل کے مطابق اگی ہوئی تھی۔ قدرت کاملہ کی تمام برکات و فضائل دیکھ کر میرا دل شکر گزاری سے بھر گیا۔ میری آنکھوں کو ہر چیز خوش نما معلوم ہونے لگی۔کائنات عجب رنگوں ، معجزوں اور نشانوں کی کامل تصویر پیش کر رہی تھی۔ جیسے میری نظر ان چیزوں سے ہٹی میں پورب میں ایک اور بستی دیکھتا ہوں۔ جس میں ان گنت گھر ہیں۔وہاں مکانوں کی زیبائش و آرائش دیدہ زیب ہے۔ بلکہ ہر گھر اپنی تنزئین و آرائش کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ صحت افزا بات یہ ہے کہ ان مکانوں میں کوئی آتا اور کوئی چلا جاتا ہے۔ مجھے پوچھ گچھ کے دوران معلوم ہوا کہ کسی کے پاس اپنا گھر ہے اور کوئی کرائے پر مقیم ہے۔ سب کی ضروریات زندگی کے الگ الگ بھاؤ بھید ہیں۔ تعلیم و تربیت کا معیار بھی الگ تھلگ ہے۔ شعبے بھی الگ الگ ہیں اور آمدنی کا معیار بھی جدا جدا ہے۔ مذکورہ تمام ماجرہ زندگی کی ایک ایسی حقیقی تصویر پیش کر رہا ہے جس کا نسل انسانی کے ساتھ ایک صدیوں پرانا سلسلہ ہے۔ہر دور کی اپنی کہانی ، اپنے اثرات اور اپنے مسائل ہیں۔ تاریخ اس بات کو بڑے وثوق سے بیان کرتی ہے کہ بنی آدم کو روز اول سے مصائب و آلام کا سامنا ہے۔وہ خواہشات کہ کنوئیں میں گرا ہوا ہے۔اسے ہر دور میں نت نئی آزمائشوں، وباؤں اور عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں ایک کونے میں خاموشی سے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ جہاں تک میری حد نگاہ سفر کرتی ہے۔میں گھر اور بے گھر لوگوں کو ٹک ٹکی باندھ کر دیکھتا ہوں۔مجھے دونوں کی ترجیحات اور مفادات الگ الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی محنت و مزدوری کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔کسی کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں اور کوئی اپنے مال کے کثرت کی بنا پر روزانہ اپنی خوراک ضائع کر دیتا ہے۔ یہ بھی تعجب ہے۔ کسی کو بہت زیادہ دیا گیا اور کسی کو بہت کم۔ دونوں کے شکری اور ناشکری کے الگ الگ جذبات و طریقے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق قدرت کے کارخانے میں کام کرتا ہے۔
ہر شخص کا الگ پیشہ ، الگ مزدوری ، الگ شعبہ ، الگ بزنس اور الگ نوکری ہے۔ مگر گھر کی خواہش اور تڑپ ہر کسی کے پاس موجود ہے۔چاہے کوئی امیر ہے یا غریب۔کیونکہ یہ جائے پناہ کا وہ سکون ہے۔ جو اپنے گھر کی چھت میں ہی نصیب ہوتا ہے۔ انسان لاکھ کسی کے گھر میں رہنے کی کوشش کرے۔مگر اسے وہ سکون حاصل نہیں ہوتا جو اس کی اپنی چھت اسے سایہ فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح کائنات کے تمام جانداروں پرندوں اور دشتی جانوروں کے اندر بھی اپنی آماجگاہ کا تصور موجود ہے۔وہ بھی راحت و سکوں پانے کے لیے اپنا اپنا گھر تعمیر کرتے ہیں۔ قدرت نے انہیں بھی سوچ بچار کا حق دیا ہے۔
الغرض زمین کی کسی بھی مخلوق کو دیکھ لیا جائے۔
وہ سب سے پہلے اپنی جائے پناہ بناتی ہے۔دشمن سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر بروئے کار لاتی ہے۔ کیونکہ روئ زمین کا ہر جاندار ایک دوسرے کا دشمن ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے سے ڈرتا ہے۔ ۔ایک دوسرے کو چیرتا پھاڑتا ہے۔ جیسے جانور جانور کو کھاتا ہے۔اسی طرح ہر انسان ایک دوسرے کو دھمکاتا ہے۔اپنی اجارہ داری قائم کرتا ہے۔حقوق و فرائض کی پامالی کرتا ہے۔اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کا خون بہاتا ہے۔
حرص و ہوس کی رال ٹپکاتا ہے۔ظلم و ستم کرتا ہے۔ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ پھر خوف کے مرض میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو چھپاتا ہے۔کبھی جنگلوں میں ، کبھی غاروں میں ، کبھی رات کے گپ اندھیروں میں اور کبھی گھروں میں۔کیونکہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے.اس کے چہرے پر ندامت کی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں۔
یہ عالمگیر حقیقت ہے۔ناقابل فراموش ہے۔فطرت میں رچی بسی ہے۔یہ سب کچھ کھلے آسمان کے نیچے ہوتا ہے۔قدرت خاموش تماشائی کی طرح سارا ماجرہ دیکھتی ہے۔انسان کی غیر فطری رویوں پرواہ ویلا کرتی ہے۔ عموما ایسے شخص کو قدرت کبھی ملعون ، کبھی نادان ، کبھی احمق ، کبھی پاگل،کبھی کج رو اور کبھی دیوانہ کہتی ہے۔اکثر و بیشتر یہ عمل جھونپڑیوں ، بستیوں ، آبادیوں ، شہروں، ملکوں اور دنیا بھر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ان مناظر کو دیکھنے کے بعد میرے کانوں میں آسمانی گھر کی سرگوشی ہوتی ہے۔ اس آواز کا پس منظر یہ ہے آسمان خدا کا فردوس ہے۔وہاں صرف راست باز اور پاک دل لوگ ہی داخل ہوں گے۔جبکہ ناپاک ، جھوٹے ، جادوگر ، شہوت پرست ، حرام کار ، شرابی ، زنا کار ، زر دوست ، جھوٹی بات کا گڑنے والے اور بت پرست خدا کی بادشاہی سے باہر رہیں گے۔کیونکہ انہوں نے اپنے جامے نہیں دھوئے۔ وہ خواہشات کی منڈی میں بک گئے۔ اپنے خالق کو بھول گئے۔ گناہ نے خدا اور انسان کے جدائی کی دیوار بنا ڈالی۔ خدا کے فردوس میں نہ ہنگامہ ہے۔نہ آنسو ہے۔نہ رنج ہے۔نہ غم ہے۔
نہ چیخ و پکار ہے۔بلکہ امن ، محبت اور نور کی برسات ہے۔
وہاں ان گنت گھرہیں۔ مگر وہ خالی پڑے ہیں۔ وہ سنسان پڑے ہیں۔ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ان میں آ کر کوئی بسیرا کرے۔کیونکہ وہ گھر ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی ملکیت ہیں۔انہیں کوئی چھین نہیں سکتا۔ڈھا نہیں سکتا۔
وہ راست بازوں کے منتظر ہیں۔ مگر لوگ چاروں سمتوں میں زمینی گھروں کو بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کے ذہن آسمانی گھر کی نعمت سے خالی ہیں۔ شاید دنیا کی لذت و تاثیر نے ان کی آنکھوں پر چربی کی تہیں چڑھا دی ہیں.
وہ دیکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتے۔انسان اس بات کو اس وقت سوچتا ہے جب وہ مجبور و بے بس ہو جاتا ہے۔
پھر وہ اپنے ذہن کی پردہ سکرین پر آسمانی گھر کے کتبے کے تصور کو آویزاں کرتا ہے۔ اس وقت توبہ و معافی کا وقت بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
تمام مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ قوت معدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ انسان عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ افسوس
اس وقت اس کا جسم تو بیماریوں کی آماجگاہ بنا ہوتا ہے۔جبکہ روح آسمانی گھر کی آرزو مند ہوتی ہے۔ لبوں پہ دعا ہوتی ہے۔کوچ جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ذہن کی پردہ سکرین پر ٹک ٹک کرتی ہیں۔ وہ سوئیاں نصیب کی دستک بھی دیتی ہیں۔ مذکورہ حقائق و اثبات کے ساتھ یہ کہاوت بھی سفر کر کے میرے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
وہ مجھے آواز دیتی ہے۔ ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” یہ سنتے ہی میری روح غم سے نڈھال ہو جاتی ہے۔ آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہنے لگتے ہیں۔ قدم تھم جاتے ہیں۔نظریں شرمندگی سے جھک جاتی ہیں۔دماغ مفلوج ہو جاتا ہے۔ چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔میرا جسم و روح پچھتاوے کے موسم میں گم سم ہو جاتا ہے۔ پھر میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔ اے آدم زاد تو نے “زمینی گھر سے آسمانی گھر تک ” کےتمام مناظر دیکھے۔اپ فیصلے کے ڈور تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو اسے تھامنا چاہتا ہے یا پھر چھوڑ دینا چاہتا ہے۔میں ہمت کر کے اس فیصلے پر پہنچ جاتا ہوں۔میری لبوں سے یہ دعا نکلتی ہے۔اے خدا
میرے دونوں ہاتھ پر دونوں گھروں کے نصیب کی ریکھائیں تراش دے۔