تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
امرتا پریتم برصغیر کی ایک مشہورو معروف شاعرہ اور دانشور تھیں لیکن وارث شاہ کے خوابوں کی تعبیر کی ہم خیال تھیں 1947 میں پنجاب کی تقسیم پر انکی پنجابی نظم ”اج اکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول“ انسان کے رونگٹے کھڑے آج بھی کر دیتی ہے اسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور وارث شاہ کے خواب کی تعبیر سے منسوب یہ مذکورہ نظم امر ہو چکی ہے اور عورت کی بے بسی اور پنجاب کے خواب کو چکنا چور دیکھ کر زندگی بھی تلملا اٹھتی ہے کیونکہ خواب کی تعبیر کا یہ کام ہمیں ماضی حال اور مستقبل کے مطالعے کے بغیر ادھورہ سا لگتا ہے کسی بھی معاشرے میں ترقی اور تبدیلی کے لیے خواب کو دیکھا جاتاہے اس کے بعد اس کی تعبیر کے لیے ایک منطقی سوچ کے تحت تحریک لائی جاتی ہے رفتہ رفتہ ترقی اور تبدیلی کے اس خواب میں عوام اور راہنما تحریکی جدو جہد میں اپنے اپنے حصےکا کام کرتے ہیں اور اس طرح سماجی و سیاسی بیداری کی تحریک کا سلسلہ انقلاب کی جانب رواں دواں ہو جاتا ہے بشرطیکہ لیڈر اور عوام مخلص اور تحریک کسی مثبت منطقی سوچ کے تحت قابل نافذالعمل بھی ہو
دنیا خواب پر مبنی نظریات اور اس کی تعبیر میں پہلی دوسری اور تیسری دنیا میں تقسیم ہوتی گئی کیونکہ بادشاہت اور شہنشاہت کے خاتمے کے بعد انقلابی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا بین الا اقوامی سطح پر کسی ملک پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کی بجائے کسی ملک کمیونٹی اور خطے کی بہتری کی جانب بڑھنے کی سوچ نے خطے اور ہجوم کو قوم بنانے پر پروگریسو سوچ نے جنم لینا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ جنگ عظیم اول اور دوئم کے بعد زیادہ تیز ہوگیا نو آبادیاتی نظام کی بھی لپیٹ شروع ہوگئی کچھ لوگ یونانی فلسفے سے استفادہ کرتے کرتے جمہوریت کو فالو کرنے لگےسیکولرازم سوشل ازم کیمونزم پر کام شروع ہوگیادنیا کےتھیو کریٹک نظام پہلے ہی مذہبی راہنماوں کے متزلزل ظالمانہ اور جابرانہ رویوں کے سبب ناکامیوں سے دوچار تھے سو انکے سلسلے بھی لپیٹے جانے لگے دنیااپنے اپنے خطوں اور سرحدوں میں کالے گورے کے فرق غلاموں کی رہائی جنگ بندی عورتوں کی آزادی UNO کا قیام بعد ازاں یورپی یونین تحریکی اور نظریاتی مفادات کے پیش نظر ملکوں کے بلاک وغیرہ پر کام شروع ہوگیا مختلف قومیں تحریکوں کولے کر آگے بڑھنے لگیں ابراہیم لنکن کارل مارکس ماوزے تنگ اور دیگر لیڈرز اپنے اپنے visions اور نظریات اور خوابوں کے تحت آگے بڑھنےلگے
ابراہیم لنکن کارل مارکس لینن سٹالن موزے تنگ اور تیسری دنیا کے عوام اور خطوں کو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو امریکہ اور یورپ پہلی سوویت یونین اور اس کے اتحادی دوسری اور امریکہ کے ساتھ اتحادی ایشیائی پسماندہ مما لک تیسری دنیا کہلاتی ہے یہ خطہ غربت و افلاس سے چور ہو چکا تھا۔ تحریکیں رائے عامہ کا سبب ہوتی ہیں اور ان کا آنا عوام اور خطے میں انقلاب کا راستہ بنانا ہوتا ہے
قارئین بات شروع ہوئی تھی خواب سےاور پھر آگے بڑھتی ہے اس پر کام اور جدوجہد سماجی بیداری اور پھر عوام میں اس کی تعبیر دیکھی جاتی ہے۔ دنیا کی بہت سی اس پر مثالیں ہیں ابراہیم لنکن نے جدید امریکہ کے لیے خواب دیکھا لیکن اسے بہت سال تک موقع ہی نہ ملا کہ وہ آگے آئے وہ تقریباً کامیابی سے قبل 17 مختلف الیکشننز میں ناکام ہوا اور اس نے 18 واں (امریکن سینٹ ) کا الیکشن جیتا اور اس نے کہا ”میں نہیں جیتا بلکہ میرا جیزز(حضرت مسیح علیہ سلام) نے جیتا ہے“ ہولی بائیبل اس کی فیورٹ کتاب تھی اور امریکہ کی سینٹ کا حلف بھی ہولی بائیبل پر ہاتھ رکھ کر ہوتا ہے وہ تھیو کریٹک نہیں ایک پرگریسو راہنما تھا اور وہ ہولی بائیبل کو فالو کرتے ہوئے ہر کام میں اپنی راہوں کا تعین کرتا تھا وہ امریکہ سے محبت کرتا تھااور اس کے خواب کی دلیل ہولی بائیبل کی سچائی کا اظہار تھا کہ آج امریکہ کو آزاد اور سپر پاور ہم دنیا میں دیکھتے ہیں بہر حال یہ اس کا ذاتی نقطہ نگاہ تھا اسی طرح کارل مارکس نے جدید چین کا خواب دیکھا گو وہ الہامی مذہب کے نقطہ نگاہ سےہٹ کر ریاست سے منسوب پروگریسو اور کیمونسٹ جدو جہد کا مظہر تھا لیکن اس کے خواب نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی گلوبل پاور فل معیشت بنا نے کی راہوں کے تعین کرنے کی بنیاد ضرور رکھی کیوںکہ وہاں کے عوام اور لیڈر نے اپنے اپنے حصے کا کام کیا ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عوام کو انصاف صحت انسانی حقوق دینے میں ہمیشہ حکمران طبقہ دعوی’ کرتا رہا ہے لیکن کس نے کیا کیا یہ بھی سب جانتے ہیں انڈیا سیکولر اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش )سیکولر ازام کا حامی ہے یعنی یہ تحریکیں عوام کو پروگریسو سوچ کے تحت لیکر آگے بڑھی ہیں اسی طرح پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے مریم نواز عوامی خدمت کے معیار کی بہتری کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں آج کل پنجاب کے عوام نے ان پر اعتماد کرکے اپنی سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی ہے کیونکہ میاں محمد نواز شریف ان کی ہر طرح سےراہنمائی کر رہے ہیں مریم نواز شریف بھی پاکستان مسلم لیگ نون کے مینیفیسٹو کے تحت سیاست میں منظر عام پر آئیں ہیں اور ایک پروگریسو سوچ کے تحت ایک خاتون کی لیڈر شپ میں آگے بڑھنے کے چیلنجز بے شمار ہیں ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سابقہ وزیر اعظم نے جمہوریت کی جدوجہد میں پی پی پی کے تحت سیکولر سوچ کو پرموٹ کیا اور اپنالوہا منوایا لیکن غیر جمہوری قوتوں نے اس کا راستہ روک کر اسے شہید کر دیا۔ اب عرصہ دراز کے بعد عوام ایک خاتون کو منظر عام پر بطور وزیر اعلی’ پنجاب لے آئی ہے جو عوامی خدمت کے جذبے سے سر شار نظر آرہی ہیں اور ڈور سٹیپ پر عوام کے حقوق انہیں فراہم کرنے کو ممکن بنانے کی کوشش اور جدوجہد کر رہی ہے وہ صحت سے لیکر انصاف قانون اور دیگر انسانی حقوق کی فراہمی کے تحت بلا رنگ و نسل مذہب و مسلک عوام کے مسائل حل کرکے ڈور سٹیپ پر انکی خدمت کی خواہش مند ہیں وہ رورل ایریاز اور گراس روٹ سطح پر کام کرنے سے نہیں گھبراتی ہیں اور دوردراز علاقوں میں صحت کے حوالے سے جہاں ڈاکٹرز بھی نہیں پہنچ سکتے وہاں انکی موجودگی کو چوبیس گھنٹے ممکن بنانے پر ڈٹی ہوئی ہیں اس سلسے میں وہ فیلڈ ہسپتالوں کے ذریعے اس گیپ کو ختم کرنا چاہتی ہیں
محترمہ مریم نواز کی گوناں گوں مصروفیات اور معمولات ہی عوام کے اندر رہ کر گراس روٹ سطح پر اور خصوصی طور رورل ایریاز میں سڑکوں کی تعمیر نو ریپئرنگ غربت اور مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے راشن سپلائی معذروں کی زندگیوں میں آسانی اور سہولتوں کے لیے ریاست کی جانب سے مالی امداد خواتین کی ترقیاتی منصوبے اور کھیلوں میں خواتین کو مواقع فراہم کرنا کسانوں کی خوشحالی کےلیےکام کرنا صحت کے حوالے سے فیلڈ ہوسپٹلز اور دیگر تمام منصوبہ جات کو ڈور سٹیپ پر خدمت کا جو رجحان اپنا رہی ہیں اس کو دیکھ کر رشک ہوتا ہے گو وہ سو فی صد اس میں کامیاب نہ بھی ہوں پھر بھی ایسی پروگریسو سوچ پر سماج ایسے اقدامات کا مثبت جواب ضرور دیتا ہے کیونکہ لوگ تسلی بخش صورت حال میں اس وقت ہی آتے ہیں جب سب کو ساتھ لے کر چلنے کی راہیں استوار ہوتی ہیں ایسی تحریکیں ملک کی خوش قسمتی کی علامت ہیں۔ غیر جمہوری قوتیں ان حالات میں بے صبری کا مظاہرہ کرتی ہیں تاکہ کوئی شعوری بیداری میں کامیاب نہ ہو جائے لیکن محترمہ مریم نواز کے جذبے کی ہم قدر کرتے ہیں۔ وہ کے پی کے میں بھی اس خدمت کو وسعت دیتے ہوئے غربت و افلاس سے پسے عوام کے لیے پیکج کو مختص کر چکی ہیں۔میاں محمد نواز محمد شریف کی راہنمائی بھی ساتھ ساتھ ملک کے عوام کے مفاد میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔پنجاب کو ستھرا بنانے کا خواب سہانا خواب ہے جس طرح وارث شاہ اس خطے سے محبت رکھتا تھا اور امرتا پریتم اس کی ہم خیال تھی آج پورا پنجاب اس خطے پر نظریں جمائے ہوئے ہے ہم سب وارث شاہ کے ہم خیال ہیں خدا کرے اس خواب کی جلد تعبیر ہو