سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بداثرات

 

تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

قدرت نے انسان کے اندر صلاحیتوں کا جم غفیر رکھا ہے۔اسے اوج ثریا پر فائض کیا ہے۔ اشرف المخلوق بنایا ہے۔ اسے اچھے اور برے کی پہچان بخشی ہے۔ زبان و ادب جیسی خصوصیات سے نوازا ہے۔ اس پر شعور و آگاہی کے دروازے کھولے ہیں۔ علم جیسا نور بخشا ہے۔ اس پر پردیسی اور مسافر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ اسے زندگی اور موت کے تصور سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس کے اندر آدمیت، بشریت اور روحانیت کا چراغ جلایا ہے۔ اقدار و روایات کا بھرم رکھنے کے لیے آمادہ کیا ہے۔ روز اول سے تا حال ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں دریافتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ وقت ، حالات اور موسموں کے انتخاب نے “ضرورت ایجاد کی ماں ہے” کے تحت بہت کچھ کرنے پر اکسایا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں تین چیزوں کا رحجان پایا جاتا ہے۔ تخلیق، تحقیق اور تنقید ۔ یہ تینوں ذہن کی پردہ سکرین پر ہر وقت کچھ نہ کچھ عمل اور رد عمل کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں۔ اگرچہ سوچنا ، پرکھنا، لکھنا اور دوسروں کے نظریات پر تنقید کرنا تحقیق و جستجو کا وہ عمل ہے جو کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق ظاہر کر دیتا ہے۔ عصر حاضر میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رحجان نے بچوں، بڑوں، خواتین، جوانوں اور بوڑھوں کی نفسیات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے چند مشہور اکاؤنٹس میں یوٹیوب چینل ، فیس بک ، ٹویٹر ، ، میسنجر ، انسٹاگرام ، واٹس ایپ، سنیپ چاٹ ، ٹک ٹاک کے نام زبان زد ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر ایپلیکیشن بھی ہو سکتی ہیں جو معرض وجود میں آ چکی ہیں یہ مستقبل قریب میں بہت جلد لانچ ہو جائیں گی۔ انسان نے ضرورت ایجاد کی ماں کے تحت ان چیزوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے۔انہیں قبول کیا ہے۔ ان سے فوائد حاصل کیے ہیں۔نقصانات بھی اٹھائے ہیں۔طرح طرح کی گیمز اور نازیبا ویڈیوز نے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کر دیا ہے۔سوچوں اور خیالوں کو تبدیل کیا ہے۔ یہ تمام سہولیات ہمیں ایک اینڈرائڈ سیٹ پر ہی مل جاتی ہیں۔یہ ہماری ذاتی و گہری دلچسپیاں ہیں جو ہمیں رنگ کائنات سے دور لے کر جا رہی ہیں۔ منفی سرگرمیوں میں ملوث کر رہی ہیں۔ قدرتی صلاحیتوں کو ختم کر رہی ہیں اور غیر طبعی رجحانات میں دن بہ دن مبتلا کر رہی ہیں۔طرح طرح کے وی لاگز نے ٹھٹھا بازی، بے ہودگی اور کم ظرفی کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ اچھی وی لاگز بھی دستیاب ہیں۔ معاشرتی سوگوار قصوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ آزادی رائے کا سب کو حق حاصل ہے۔ مگر ہمیں اس بات کو بھی فطرت کے ساتھ نتھی کر لینا چاہیے کہ جو چیز غلط ہے۔نقصان دہ ہے۔نشہ آور ہے۔ نفسیات تبدیل کرتی ہے۔گمراہی اور برگشتگی پھیلاتی ہے۔ بچوں کا بیڑا غرق کرتی ہیں ۔
اسے ترک تعلقات کی بنیاد پر خیر بات کہہ دینا حقیقی فتح کی شروعات ہے۔ وقت پہلے بھی گزرتا تھا۔اب بھی گزر جائے گا۔مکالمہ اس بات کا ہے کہ ہمیں وقت کے اعتبار سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہونا چاہیے تھا۔مگر وقت حالات اور اپنائیت نے ہماری ترجیحات کی سمت تبدیل کی ہے۔ ہاتھ میں کتاب ہونے کی بجائے موبائل فون ہے۔ اسلحہ ہے۔زبان میں شرارت ہے۔ چال میں لڑکھڑاہٹ ہے۔دامن داغدار ہے۔ چہرے پہ حسد جیسی سلوٹیں ہیں۔
آج ہر انسان نے اپنی شہرت کا سراغ سوشل میڈیا کو بنا لیا ہے۔شب کے پہروں میں رات دیر تک جاگنا زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ شہرت کے چکر میں وقت گزرتے پتہ نہیں چلتا کہ کتنے پہر گزر چکے ہیں اور کتنے باقی ہیں؟ راتوں کو جاگنا صحت کاملہ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ کئی نفسیاتی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔مثلا کند ذہنی ، لاپرواہی ، بے سمتی ، بے برکتی، بے خوابی ، چڑچڑا پن ، بکثرت موبائل کا استعمال آنکھوں کی بینائی پر خاصا اثر ڈالتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی عادات اور دلچسپی کے تحت پسند اور ناپسند کے چکر میں پڑ گیا ہے۔ پسند کے انتظار میں راتوں کو جاگنا عجیب رویہ بن گیا ہے۔شاید لوگ شہرت کے چکر میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی صحت سے محبت نہیں رہتی۔ حالانکہ خدا نے رات آرام کے لیے بنائی ہے جبکہ دن کام کاج کے لیے۔ لہذا یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ عصر حاضر میں سب سے زیادہ نفسیاتی بیماریوں نے جنم لیا ہے۔
اخلاقی امراض میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ جسمانی بیماریاں ہمارے کالے کرتوتوں یعنی ملاوٹ مافیا ، ناقص پانی ، غیر متوازن خوراک ، بسکٹ برانڈ ، سلانٹی ، چپس ، غیر معیاری دالیں ، اسپرے شدہ سبزیاں بیماریوں میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہاں پر دیکھا جائے تو انسان انسان کا دشمن بن چکا ہے۔ دولت کی حرص و ہوس نے انسان کو اس حد تک پاگل اور دیوانہ بنا دیا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں۔ وہ بالکل صحیح ہے۔حالانکہ اس کی فطرت میں ناپاک عزائم جیسے عناصر کی بدبو شامل ہوتی ہے جو شاید اسے تو اچھی لگتی ہے۔مگر معاشرے میں وہ اپنا ناگوار اثر قائم کر رہی ہوتی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ احساس اور محبت میں خدا بنے بیٹھے ہیں۔ کچھ نفرت کی چنگاریاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ اپنی رائے کا اظہار کر کے حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں۔اسے یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک مثبت و منفی رحجان کی داغ بیل ہے۔ ہماری پہچان و کردار کے بھی الگ الگ زاویے اور سمتیں ہیں۔ کیونکہ جتنا بڑا کام اور فن ہوگا۔ شہرت کے پر بھی اسی قدر طاقتور ہوتے ہیں۔اونچی اڑان ہوتی ہے۔ وقت کا حاصل ہوتا ہے۔ محنت کا ثمر ہوتا ہے۔آج سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اپنی پروڈکٹس بیج رہے ہیں۔ کچھ علم ادب کے پرچار کے لیے سرگرم ہیں۔ کچھ فحش مواد پھیلا رہے ہیں۔ کچھ تخریب کاری کو جنم دے رہے ہیں۔ بہرحال ہر انسان کسی نہ کسی سرگرمی میں مبتلا ہے۔
میں یہاں ایک بات ضرور لکھنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ اچھے کاموں کی تعریف و تحسین کرنی چاہیے۔ جبکہ منفی ہتھکنڈوں کی نفی کرنی چاہیے۔ کیونکہ جب انسانی فطرت حقائق پر اپنی عمارت کھڑی کرتی ہے تو وہ گرنے سے بچ جاتی ہے۔خواہ اس پر طوفان آئیں۔ آندھیاں چلیں۔ الزامات کی بارش پڑے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کسی کی محبت ہے کہ وہ آپ کو پسند کرے۔ اپنی رائے کا اظہار کرے۔
آپ کی ذات، فن اور شخصیت پر نوٹ لکھے۔ تیسری بات “جیسی کرنی ویسی بھرنی” یقینا اگر ہم دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں تو لوگ بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ لوگوں پر بے جا تنقید اورکسی کے کپڑے اتارنے سے بہتر ہے اس شخص سے ذاتی طور پر رابطہ کیا جائے۔ گفتگو اور باہمی میل جول کے ذریعے اپنی کنفیوژن دور کر لی جائے۔
کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ آپ جیسا چاہیں اس کے ساتھ بد سلوکی کریں۔ امتیازی رویہ رکھیں۔ حسد اور بغض کی نبض دیکھیں کہ وہ کتنی سپیڈ کے ساتھ چلتی ہے ۔
بلکہ محبت اور اطمینان کی روح سے ایک دوسرے کو بہتر جانو۔ کیونکہ حوصلہ افزائی کے پھول بانٹنے سے قلب و ذہن کو ہمیشہ تر و تازگی کا احساس ملتا ہے۔ لہذا عزت نفس کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی عزت نفس کا ضرور خیال رکھیں۔ اپنے احساسات اور جذبات کی بدولت مثبت تاثرات کا خوبصورت گلدستہ تیار کریں اور دوسروں کو پیش کر دیں۔
کیونکہ دنیا میں نفرتوں کہ موسم آباد کرنے کا زمانہ نہیں بلکہ اپنے فن اور شخصیت کے منشور میں “محبت میرا موسم ہے” جیسے منشور کی شمع جلا کر اس فیض کو عام کریں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading