تحریر: زاہد فاروق

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 11 اگست کو منارٹیز ڈے منانے کا فیصلہ ہوا اور اب اس دن کو مناتے ہوئے تقریبا 15 سال بیت چکے ہیں۔ اس دن اقلیتیں وطن عزیز کو انگریز سے آزادی کی خوشی میں تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں خوشیاں مناتی ہیں پاکستان سے متعلق لباس پہنتی ہیں۔ مذہبی، سیاسی اور سماجی تمام لوگ اپنے اپنے طور پر پروگرام کرتے ہیں۔

اس دن اقلیتیں ان یقین دہانیوں کو بھی یاد کرتی ہیں جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت اقلیتوں سے وعدے کیے تھے۔ وعدوں کے حوالے سے صورتحال کیا ہے! اور یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے اس دن کے حوالے سے موجودہ دور میں اقلیتوں کو کن مسائل کا سامنا ہے! مسائل کیا ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے اقلیتوں کی معاشی، سماجی، سیاسی اور مذہبی صورتحال کیا ھے!
منتخب نمائندوں سرکاری افسران سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو ان تقریبات میں بلایا جاتا ہے تاکہ ان یقین دہانیوں کو دہرایا جا سکے جن کے اوپر اقلیتوں کو تحفظات ہوتے ہیں
اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اقلیتیں اپنا قومی دن بھی منائیں اور سانحہ جڑانوالا، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سرگودھا، شانتی نگر، پشاور یا جوزف کالونی لاہور ہو ان واقعات کے اوپر بات نہ ہو جن کے سبب سے آج ہم یہاں مسائل کا شکار ہیں اقلیتوں کا ایک بڑا حصہ ان واقعات کے بعد خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
ضرورت ہے کہ حکومتی اکابرین سیاسی جماعتیں یہ خود سوچیں کہ موجودہ دنوں میں اقلیتوں کی کیا صورتحال ہے! ان کو کتنی سیاسی مذہبی آزادی حاصل ہے معاشی طور پر ان کی کیا صورتحال ہے کاروبار کے حوالے سے ان کو کتنے مواقع ریاست نے فراہم کیے ہیں۔ بچوں میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی کیا صورتحال ہے ان کے جو ہسپتال تھے ان کی کیا صورتحال ہے اب یہ جائزہ بھی لینے کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں معاشی، سماجی، اور سیاسی طور پر کمزور طبقہ زیادہ مسائل کا سامنا کرتا ہے۔اب ضرورت ہے کہ 11 اگست کو جب مائنورٹیز ڈے منایا جا رہا ہو تو اقلیتوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے کیا اقدامات ہوئے ہیں اس کے اوپر سوچ بچار کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ سیاسی جماعتیں جو اقلیتوں سے ووٹ لیتی ہیں ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جب ووٹ کیلئے اقلیتوں سے رابطہ کرتے ہیں ان کے امیدوار آتے ہیں تو کیا اب اس صورتحال میں جب اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محسوس سمجھ رہی ہیں تو ان سیاسی جماعتیں اب ان کا کیا رول بنتا ہے۔
ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ 11 اگست کے حوالے سے جہاں جہاں بھی جس بھی تنظیم کے پروگرام ہیں ان کو تحفظ دیا جائے۔
ان پروگراموں میں آنے والے تمام شرکا کو تحفظ دیا جائے یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

پروگرام کے منتظمین سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے پروگرام میں کوئی ایسا عمل نہ ہونے دیں جس سے امن و امان کے مسائل پیدا ضرورت ہے کہ حکومتی ادارے اور پروگراموں کی انتظامیہ ایسے لوگوں پر نظر رکھیں جو پروگرام خراب کرنا چاہتے ہیں وہ پروگرام میں ہی موجود ہوتے ہیں اور پروگرام کو خراب کرنے کی نیت سے وہ آتے ہیں۔
ایسے ہی لوگ پروگراموں میں بدنظمی اور اشتعال انگیزی پیدا کرتے ہیں ایسے لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
11 اگست منانا اب اقلیتوں کا رواج بن گیا ہے اور وہ 11 اگست کیوں نہ منائیں اور ان تمام مسائل کا ذکر کیوں نہ کریں جو ان کو درپیش ہیں۔جن کی وجہ سے ان کی جانیں ان کے خاندانوں کی جانیں ان کی آبادیاں ان کے گھر کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے بے روزگاری بڑھ جاتی ہے خوف پیدا ہوتا ہے۔ خوف والی زندگی میں کب تک جیا جا سکتا ہے خوف کا اظہار بھی نہ کریں اب یہی کہا جا رہا ہے ۔
لہذا حکومتی اداروں سے مطالبہ ہے کہ 11 اگست کو جو بھی پروگرام ہو جہاں بھی پروگرام ہوں وہ منتظمین کے ساتھ مل کے ان پروگراموں کو تحفظ دیں۔

پاکستان زندہ باد

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading