ہماری پولیس، شکایات، احتساب، پرفارمنس اور ریفارمز

تحریر: عابد حسین قریشی 

گزشتہ ہفتہ آواری لاہور میں پولیس ریفارمز اور اندرونی احتساب کے عنوان سے خصوصی طور پر پولیس آرڈر 2002 کے تناظر میں پولیس کی پرفارمنس کے حوالہ سے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ سیمینار centre for peace&Development initiatives نامی تنظیم نے منعقد کروایا۔اس میں پولیس سروس کے چند معتبر اور سینیر سرونگ اور ریٹائرڈ پولیس افسران سمیت ، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب، چئیر پرسن وفاقی محتسب میڈم فوزیہ وقار، چند ممبران اسمبلی سمیت بہت سے وکلاء، انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ خواتین و حضرات اور میڈیا کے بہت سے قابل ذکر لوگ موجود تھے۔اسد جمال ایڈووکیٹ تو اس سیمینار کے روح رواں تھے ہی مگر تابش مجاہد اور بہت سے انکے نوجوان پرجوش ساتھی اس سیمینار کو کامیاب کرانے میں پوری طرح متحرک تھے۔ اس سیمنار میں سبھی لوگوں کو بولنے کا موقع دیا گیا، اور پولیس کی پرفارمنس۔ شکایات، احتسابی کاروائیاں، تفتیش اور ٹریننگ ، غرض ہر زاویہ سے بڑی کھل کر باتیں ہوئیں۔ اگر اس ساری گفتگو کو پوائنٹ وائز بیان کرنا ہو تو اس طرح ہے۔ پولیس آرڈر 2002 پر نہ تو آج تک عمل ہوا ہے، نہ ہی اسکا مکمل نفاذ۔ پبلک سیفٹی کمشن اور complaints Authorities کی تشکیل ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ پولیس آرڈر 2002 کے نفاذ کا بنیادی مقصد پولیس کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے delink کرنا اور ایک آزاد اور غیر سیاسی پولیس فورس قائم کرنا تھا، مگر یہ DM سے تو آزاد ہو گئی، لیکن ایک آزاد اور غیر سیاسی فورس نہ بن سکی۔ آج بھی ضلعوں میں DPOs لگاتے وقت IG کی بجائے چیف منسٹر پولیس افسران کے انٹرویو کرتے ہیں۔ کسی ضلع میں یہ ممکن ہی نہیں، کہ وہاں کا DPO حکومتی جماعت کے کسی MNA یا MPA کو ناراض کر سکے۔ اس میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کا نام نہیں بلکہ سبھی سیاسی جماعتوں کا یہی وطیرہ ہے۔ تو گویا پولیس کو آزاد، غیر جانبدار اور غیر سیاسی فورس بنانے کا خواب تو یہی چکنا چور ہوا۔ پولیس آرڈر 2002 کے پوری طرح نفاذ میں کوئی حکومت بھی مخلص نہ تھی اور نہ ہے۔ البتہ کریمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کی کارکردگی کو عمومی طور پر سراہا گیا اور اسے مزید موثر بنانے پر زور دیا گیا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 176 کے تحت ہونے والی جوڈیشل انکوائری کو غلط تناظر میں پولیس افسران بھی اور جوڈیشل افسران بھی سمجھ رہے ہیں۔ اسکا دائرہ بڑا محدود ہے کہ اگر کوئی پولیس حراست میں مرتا ہے تو مجسٹریٹ اسکی موت کی وجہ کا تعین کرے گا۔ مگر ہم نے اسے عام پولیس مقابلوں پر بھی منطبق کر دیا۔ دو تین لائنوں پر مشتمل دفعہ 176 ضابطہ فوجداری پوری طرح پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ اور ہر پولیس مقابلہ خواہ وہ جنگل میں ہو یا سڑک پر اسکی جوڈیشل انکوائری اسی دفعہ 176 کے تحت کرائی جاتی ہے۔ جس سے بہت سے غیر قانونی پولیس encounters کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
پولیس ملازمین کے خلاف شکایات، یا internal accountability پر بڑی سیر حاصل بات ہوئی۔ اس سلسلہ میں facts and figures بھی پیش کئے گئے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے اور جو کہ درست بھی ہے کہ پولیس ملازمین کے خلاف اگر ہزاروں شکایات موصول ہوتی ہیں، تو انکو دی گئیں سزائیں بھی ہزاروں میں ہیں، اور بعض سزائیں الزام کے مقابلے میں بڑی سخت بھی ہیں۔اور پھر محکمانہ اپیلیں 98 فیصد خارج کرکے ان چھوٹے ملازمین کو عدالتی کاروائی کے منجدھار کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ البتہ اس بات پر سبھی شرکاء میں اتفاق تھا، کہ اتنی سخت سزاؤں اور internal accountability کے باوجود نہ تو پولیس کے عمومی رویے میں کوئی فرق آیا ہے، نہ ہی ورکنگ میں کوئی بہتری۔ اور نہ ہی پولیس کے عمومی perception میں کوئی بہتری آئی ہے۔ جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ تھانوں کی خوبصورت عمارتیں بنانے سے پولیس کا امیج بہتر نہیں ہو سکتا، خصوصاً تھانہ کلچر اور پولیس تشدد پولیس کی کارکردگی پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ان سب باتوں کے ساتھ پولیس ملازمین کے آرام و آرائش کے خیال نہ رکھنے سے، چھٹی لینے کے ٹرینڈ کی ہر وقت حوصلہ شکنی اور بجٹ کا تھانہ تک نہ پہنچنا بھی تھانہ لیول کی پولیس جو کہ اس نظام کی back bone ہے، کی کارکردگی کو شدید متاثر کرتا ہے، فرانزک سائنس سے لا علمی، ماڈرن نہج پر تربیت کا فقدان، تفتیشی ونگ کو مناسب اہمیت نہ دینے، تھانہ لیول پر مناسب وسائل اور پولیس کے رویہ میں ایک خاص لیول کا تناو اور بد مزاجی، یہ سب مل کر پولیس کا مجموعی perception خراب کرتے ہیں۔ تفتیشی افسران کے ساتھ ساتھ پنجاب میں پراسیکیوٹرز کی بھی شدید کمی فوجداری نظام انصاف میں بڑی رکاوٹ ہیں، پھر PSP ،اور رینکرز میں جو discrimination برتی جاتی ہے، وہ بھی پولیس فورس کے مورال پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سیمینار میں شریک اکثر female شرکاء کا خیال تھا کہ پولیس جتنا بڑا ڈیپارٹمنٹ ہے اس حساب سے اس میں لیڈیز ملازمین و افسران کی نمائندگی نہ ہے۔ پولیس کا بجٹ اگرچہ اربوں روپے میں ہے، مگر اسکا زیادہ حصہ تنخواہوں اور دیگر مراعات کی نظر ہو جاتا ہے۔ پولیس ٹریننگ ناقص بھی ہے۔اور اس پر کوئی خاص focus بھی نہ ہے۔ اس سیمینار میں پولیس کی ورکنگ پر خاصے تند و تیز جملے اور تنقید کے نشتر بھی چلائے گئے۔ مگر وسائل کی کمی اور کسی خاص پروفیشنل ٹریننگ کے فقدان کے باوجود crime tracing کی صلاحیت کو سراہا بھی گیا۔ کہ بہت سے اہم مقدمات کے ملزمان کو یہی پولیس ٹریس بھی کرتی ہے اور چالان بھی۔
تاہم شرکاء سیمینار نے پولیس کے سسٹم کو بہتر بنانے، پولیس آرڈر کے من و عن نفاذ، پولیس کو ایک دہشت و خوف کی علامت کی بجائے پبلک فرینڈلی بنانے، چھوٹے ملازمین کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے، انکی تنخواہیں اور مراعات میں مناسب اضافہ، internal accountability کو مزید بامعنی اور موثر بنانے، پولیس کلچر میں زیادہ تہزیب و شائستگی لانے، پولیس کا perception بہتر بنانے، پولیس بجٹ کو تھانہ تک پہنچانے، پولیس ٹریننگ ماڈرن نہج پر کرنے اور پولیس کو depoliticise کرنے پر اتفاق کیا۔ کہ ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں بہتری کی گنجائش ہے۔بہر حال منتظمین سیمینار کی طرف سے ایک اہم شعبہ زندگی کے اس احسن طریقہ سے مسائل کی نشاندہی اور انکے حل کی کاوش قابل ستائش ہے۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading