(Bioiluminescence) پریوں کی روشنی

 

 تحریر: پروفیسر عامرزریں

چند دن پہلے کراچی کے ساحل پر پانی میں عجیب و غریب روشنیوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ ایک عام آدمی کے لئے تو یہ اچنبھے کی بات ہو لیکن سائنسی علوم اور وہ بھی سمندری سائنسی علوم (Oceonography) کاعلم رکھنے والے افراد کے لئے یہ ایک حیاتیاتی رحجان تھا جو کہ مخصوص سمندری جانداروں کی صفات میں سے ایک ہے۔ ان روشنیوں کو بائیو الومینینس یا عام فہم میں پریوں کی روشنیوں کا نام دیا گیا ہے۔ سمندری مخلوقات کا یہ رحجان سب سے پہلے ارسطو (384 – 332 قبل مسیح) نے مشاہدہ کیا اور اسے بائیو الومینینس کا نام دیا۔اس نے اس عمل کو تفصیل سے ریکارڈ کیا۔ اپنے مطالعے کے دوران، اس نے دریافت کیا کہ یہ جاندار خود روشنی پیدا کرنے کے قابل تھے۔ ان مخصوص جانداروں کا یہ طرز عمل دریافت کرنے والا ارسطو پہلا شخص تھا۔ اگرچہ روشنی میں حدت پائی جاتی ہے لیکن اس روشنی کو جو کہ یہ سمندری جاندار پیدا کر رہے تھے، اس کے لئے ٹھنڈی روشنی کی اصطلاح رائج کی گئی۔

سائنسی علم کی روشنی میں ٹھنڈی روشنی کا عمل ایک کیمیائی رد عمل جس کے نتیجے میں بائیوالومینسینس ہوتا ہے۔یہ کیمیائی ردِ عمل عام طور پر سمندری حیاتیات میں دیکھا جاتا ہے، یہ زندہ چیزوں سے روشنی کا اخراج کرتا ہے۔ اس کے لیے دو منفرد کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے: لوسیفرین اور یا تو لوسیفریز یا فوٹو پروٹین۔ لوسیفرین وہ مرکب ہے جو دراصل روشنی پیدا کرتا ہے۔ قدرتی طور پراس قدرتی مظاہر کا مشاہدہ رات کے اوقات میں ساحل سمندر پر کیا جاسکتا ہے۔ جب پانی میں بائیو الومینینس ہوتی ہے، تو یہ عام طور پر پلینکٹن کے چمکنے سے ہوتی ہے، جب رات کے وقت ساحل ِ سمندر پر لہروں کے آنے اور واپس جانے سے بائلومینیسنٹ سمندر چمکتا ہے۔ الجی (سمندری نباتات) بلوم سمندری چمک کے واقعات پرسکون اور گرم سمندری حالات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔رات کے وقت، یہ گھنے گلابی رنگ کے مظہر روشنی کے ٹارچ سے دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن مکمل اندھیرے میں بائیوالومینیسینس کا بہترین مشاہدہ بغیر کسی ٹارچ کے باآسانی کیا جاسکتا ہے۔

یہ روشنی پیدا کرنے والے جاندار یا بائیوالومینسینٹ زیادہ تر سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ ان سمندری اقسام میں مچھلی، بیکٹیریا اور جیلی فش شامل ہیں۔ کچھ بائیوالومینسینٹ جاندار، بشمول جگنو او ر فنجائی زمین پر پائے جاتے ہیں۔ اگر ایسے روشنی پیدا کرنے والے، یا بائیوالومینسنٹ، جانداروں کے روئے ارض پر پھیلاؤ کی بات کریں تو یہ زمین پر سمندروں کے طول و عرض میں پائے جاتے ہیں، اسپیکٹرم، جھپکنے والے بیکٹیریا، بھڑکتی ہوئی فنجائی، چمکتی ہوئی اسکویڈ اور چمکتی ہوئی مچھلیاں ہیں۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ مچھلی صرف بائیوالومینسنٹ ہیں اور کوئی پودے نہیں ہیں جو روشنی پیدا کرتے ہیں۔)

بایولومینسینس کا رحجان سمندر میں بہت عام ہے۔ سمندر میں پیلاجک زون یعنی 200 سے 1,000 میٹر (656 اور 3,280 فٹ) گہرائی کے درمیان رہنے والے 80 فیصد جاندار بایولومینیسینٹ ہیں یعنی وہ یہ خود ساختہ روشنی پیدا کرنے کی خاصیت رکھتے ہیں۔میٹھے پانی والے ماحول میں پائے جانے والے تقریبا ً کسی بائیوالومینیسینٹ جاندار وں کے بارے میں ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں ہے۔

روشنی پیدا کرنے والے کچھ جاندار زہریلے مادے پیدا کرتے ہیں جو سمندری جنگلی حیات، انسانوں اور ان کے ساتھ رابطے میں آنے والی ہر چیز کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، اس لیے انہیں چھونا یا اس پانی میں تیرنا محفوظ نہیں ہے۔ جبکہ پانی کے بعض بائیوالومینیسینٹ کی پانی میں موجودگی تیراکوں کے لئے بے ضرر ہوتی ہے۔ تاہم، کچھ انواع (dinoflagellates) انسانوں کے لیے زہریلی ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر سمندری نباتات(الجی بلومز) سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ الگل بلوم والے پانی میں نہ تیریں، چاہے وہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں۔ براہ راست رابطہ جلد کے انفیکشن یا موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔Bioluminescent سمندری انواع انسانی صحت پر شدید اثرات مرتب کر سکتا ہے اور اسے چھوا نہیں جانا چاہیے۔ کشتی سے سمندری بایولومینسینس کا تجربہ کرنا زیادہ محفوظ طرزِ عمل ہے۔

مخصوص جانداروں کے روشنی پیدا کرنے کے اس قدرتی عمل کے فوائد میں کم پس منظر، بیک وقت متعدد جانداروں کی تصویر بنانے کی صلاحیت (آلہ پر منحصر)، زیادہ حساسیت، خصوصیت اور روشنی کا بے ضرر ہونا شامل ہے۔ لیکن یاد رہے کہ زیادہ اور کم طول موج کی روشنی کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔یہ بہت دل چسپ امر ہے کہ محققین نے ہدایت شدہ ارتقاء کے ذریعے لوسیفریز جین میں ترمیم کرکے AkaLumine پر مبنی ایک مصنوعی بایولومینسینس سسٹم بنایا ہے۔ اس نے انہیں ایک مصنوعی بائیوالومینسینس سسٹم تیار کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ مصنوعی بائیوالومینیسینس زندہ جانوروں کے بافتوں  میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پورٹو ریکو کی موسکیٹو خلیج جو کہ اس کے مشرقی ساحل سے دور  کے جنوبی ساحل پر پوشیدہ اور تنگ داخلی مینگرووز کی ڈولفن کی شکل کی خلیج ہے، گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں بائیوالومینیسینس کے روشن ترین واقعے کے لئے رپورٹ ہوچکی ہے۔یہ خلیج کیریبین کے چھوٹے سے جزیرے Vieques سے جُڑا ہوا ہے۔سیاح اور سائنس دان یہاں دنیا کی سب سے روشن اور مشہور بائیولومینیسینٹ خلیج کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ پانی میں dinoflagellates کا زیادہ ارتکاز اندازہً 720,000 فی گیلن پانی مشاہد ہ کیا گیا ہے۔ بائیوالومینیسینس کا موسم مئی یا جون کے اواخر میں شروع ہوسکتا ہے، لیکن بائیوالومینیسینس سیزن کا عروج جولائی اور ستمبر کے درمیان ہوتا ہے۔ نئے چاند کے دوران ان جانداروں کی چمک ستاروں کی طرح دیکھی گئی ہے۔ دیگر عوامل جو بائیوالومینیسینس کی شدت کو متاثر کر سکتے ہیں بارش اور طوفان ہیں۔

بایولومینیسینس کے بارے میں تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ تمام روشنی مالیکیول لوسیفرین کے آکسیڈائزیشن سے پیدا ہوتی ہے، یہ ردعمل انزائم لوسیفریز کے ذریعے عمل پذیر ہوتا ہے۔ بائیوالومینیسینٹ جاندار اپنی روشنی خود پیدا کرتے ہیں ہے۔ ان مخصوص جانداروں کے روشنی پیدا کرنے کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں، مثلاً اپنے شکاری جانداروں کو بھگانا، اپنے شکاریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا، ممکنہ ساتھیوں کو بہکانا، اور شکار کو لالچ دینا۔ یہ پریوں کی روشنیاں درحقیقت زندگی، موت اور جنس کا رقص ہیں۔ ربّ ِ کائنات کی تمام کاریگری سے انسانی عقل دنگ ہے۔ یہ بھی قدرتِ الٰہی کا کرم ہے کہ جن عجائب تک ابھی تک انسان کی رسائی ہوئی ہے، ان اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے فہم و حکمت بھی قدرت نے عطا کی ہے۔ انسان کی اتنی حیثیت کہاں کہ اپنے بل بوتے پر ایسے کرشمات کو جان پائے۔اگر ان بائیو الومینیسنٹ جانداروں کے اس حیاتیاتی طرز ِ عمل کو قدرت کے عجائبات میں سے ایک کا نام دیا جائے تو اس میں مضائقہ نہ ہوگا۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading