تحریر: پروفیسر عامرزریں
گلوبل وارمنگ” سے مراد عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ اضافہ، ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے ارتکاز کی وجہ سے ہے۔ ”موسمیاتی تبدیلی” سے مراد ایک طویل عرصے کے دوران آب و ہوا کے عوامل میں بڑھتی ہوئی تبدیلیاں ہیں- بشمول بارش، درجہ حرارت، اور ھواؤں کے رُخ میں تبدیلی ہے۔ جنوری تا اپریل عالمی سطح کا درجہ حرارت 175 سال کے ریکارڈ میں 1.34 ° C (2.41 ° F) پر 1901-2000 کے اوسط 12.6 ° C (54.7 ° F) سے زیادہ گرم ترین درجہ بندی پر رہا۔ NCEI کے شماریاتی تجزیے کے مطابق، اس بات کا 61% امکان ہے کہ 2024 کو ریکارڈ پر گرم ترین سال قرار دیا جائے گا اور 100% امکان ہے کہ یہ ٹاپ فائیو میں شامل ہو گا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بشمول پاکستان دنیا بھر میں درجہ حرارت کے اضافہ کی شرح بڑھی ہوئی نظر آئی ہے۔
گلوبل وارمنگ زمین کے مجموعی درجہ حرارت کی طویل مدتی حدت یا تپش ہے۔ اگرچہ گرمی میں اضافے کا یہ رجحان ایک طویل عرصے سے جاری ہے لیکن جیواشم ایندھن (Fossil Fuel) کے جلنے کی وجہ سے پچھلے سو سالوں میں اس کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح اس ایندھن کے جلنے کے حجم میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ گلوبل وارمنگ صنعتی دور سے پہلے (1850 اور 1900 کے درمیان) انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے دیکھی گئی ہے۔ بنیادی طور پر فوسل فیول جلانا، زمین کی فضا میں درجہ حرارت بڑھانے والی گرین ہاؤس گیس کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ اور یہ ”موسمیاتی تبدیلی” روئے ارض پر ماحول میں ایک بڑے خطرے کا سبب بنتی نظر آرہی ہے۔
پائیدار ترقی کے اہداف یہ بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح جنگلوں سے لے کر سمندروں تک ہر جگہ کے درمیان اپنے ماحول کی حفاظت کر سکتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سست کر سکتے ہیں۔ اپنے بجلی کے استعمال اور اپنے سفر کے بارے میں سوچیں۔ اپنے دستر خوان دیکھیں۔ آپ جو بھی کر سکتے ہیں دوبارہ استعمال (Recycle) کریں۔ کارروائی کے امکانات تو بظاہر بہت ہیں لیکن ضرورت ہے اپنے ماحولیاتی تغیرات کے آگے بند باندھنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔مختلف ممالک میں فی کس گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شرح مختلف دیکھی گئی ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں فی کس اخراج عالمی اوسط 6.5 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے جب کہ ہندوستان میں یہ عالمی اوسط کے نصف سے بھی کم ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ آمدنی والی آبادی کا 10 فیصد تمام اخراج کا تقریباً نصف حصہ ہے۔ سائنسدانوں کی پیشن گوئیوں کے اثرات دورِ حاضر میں نمایاں ہونے لگے ہیں۔ جیسے سمندری برف کا نقصان، گلیشیئرز اور برف کی چادروں کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، اور زیادہ شدید گرمی کی لہریں۔ سائنسدانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ انسانی ساختہ گرین ہاؤس گیسوں سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہے گا۔ شدید موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی بڑھیں گے اور شدت اختیار کریں گے۔
ہم اپنی اس زمین کے صحت مند ماحول کیلئے درج ذیل اقدامات کر سکتے ہیں ……گھر میں توانائی کی بچت کریں، کیونکہ ہماری زیادہ تر بجلی اور حرارت کوئلے، تیل اور گیس سے چلتی ہے۔ اپنے گھر کے توانائی کے ذرائع کو تبدیل کریں۔پیدل چلیں، موٹر سائیکل چلائیں یا پبلک ٹرانسپورٹ لیں۔الیکٹرک گاڑی پر جائیں۔اپنے سفری ذرائع پر غور کریں۔ چیزوں کا دوبارہ استعمال کریں، مرمت کریں اور ری سائیکل کریں۔ سبزیاں زیادہ کھائیں کھانا کم ضائع کریں۔
زمینی ماحول کی بقا اور بحالی کیلئے جنگلات کا اہم کردار ہے۔ پودے کئی طریقوں سے ماحول کو بہتر بناتے ہیں، جیسے ماحول میں آکسیجن کا اخراج، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا، جانوروں کو غذائی اجزاء فراہم کرنا، اور پانی کے چکر (Water Cycle) کو منظم کرنا۔ پودے زمین کے کٹاؤ سے بچانے میں مدد کرتے ہیں اور مٹی کو زرخیز رکھنے کیلئے غذائی اجزا جاری کرتے ہیں۔ پودے اپنی خوراک کی تیاری کے عمل کے دوران مٹی سے تقریباً ایک تہائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو الگ کرتے ہیں۔ گیس کی یہ شرح ہر دہائی میں فوسل ایندھن کے جلنے سے فضا میں خارج ہوتی ہے۔ ضیائی تالیف (Photosynthesis) کے دوران پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حاصل کرتے ہیں اور اپنی خوراک خود تیار کرنے کیلئے اپنے پتوں کی سطحوں پر چھوٹے سوراخ (Stomata) کھولتے ہیں۔
گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ پودوں کے ذریعے فضا سے ہٹائی جاسکتی ہے۔ ضیائی تالیف یا پودوں میں خوراک بنانے کے کیمیائی عمل میں سورج کی روشنی کو توانائی میں بدل دیتا ہے۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو چینی اور آکسیجن میں بھی بدل دیتا ہے۔ پودوں میں جذب شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول سے باہر رکھا جاتا ہے جب تک کہ پودے مر نہیں جاتے اور یہی وجہ ہے کہ کاربن گیس کی شرح کو کم کرنے میں میں جنگلات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پودے اپنے میٹابولزم (Metabolism) پھول نشوونما اور تولید کو تبدیل کر کے ماحولیاتی تناؤ کے مطابق ڈھال لیتے ہیں یا پھر یہ پودے اور زیادہ سازگار موسمی حالات والے علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ پودوں کی جڑیں دراڑوں کو بڑا بنا سکتی ہیں۔ آپ نے فٹ پاتھ کی دراڑیں پودوں سے بڑی ہوتی دیکھی ہوں گئی۔ پودے اپنے ماحول کو بھی بدل سکتے ہیں۔ بعض اوقات پودوں کی جڑیں چٹان یا کنکریٹ میں دراڑیں بن سکتی ہیں۔ جیسے جیسے درخت بڑھتے ہیں وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں جو کہ ماحول میں ایک اہم گرین ہاؤس گیس ہے۔ کاربن گیس کو جذب کرنے کا عمل تمام پودوں کیلئے یکساں ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بانس Bambusa vulgaris (L.)) ایسا پودا ہے جو جتنی تیزی سے بڑھتا ہے، اتنا ہی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فی سیکنڈ استعمال کرتا ہے۔ اس پیمائش سے بانس کاربن گیس کوجذب کرنے میں بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔ جب مختلف ادارے اور سماجی کمیونٹیاں درخت لگاتی ہیں تو وہ اپنی اس ماحول دوست سرگرمی سے مقامی علاقے اور دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر رہی ہوتی ہیں۔
ادارہ براہِ جنگلات کے شماریاتی تجزیہ کے مطابق پاکستان میں 4.2 ملین ہیکٹر جنگلات ہیں اور درخت لگائے گئے ہیں جو کہ کل رقبہ کا 4.8 فیصد بنتا ہے۔ جنگلات کا چالیس فیصد حصہ شمالی پہاڑیوں اور پہاڑوں میں مخروطی(Coniferous) اور جھاڑی والے جنگلات پر مشتمل ہے۔دنیا بھر میں زیادہ جنگلات سے ڈھکے ہوئے رقبہ کے حوالے سے20.1% شرح کے ساتھ روس پہلے نمبر پر جبکہ برازیل 12.3% شرح کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد کینیڈا، امریکہ اور چین میں زیادہ جنگلات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئی خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ہم دوسرے احتیاطیں اور درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کیلئے اقدامات اُٹھا رہے ہیں، وہیں اپنے ملک اور دنیا کے صحت مند ماحول کیلئے زرعی زمینوں، صحراؤں اور خالی غیر آباد رقبہ پر درخت لگائیں۔ اپنے شہری علاقوں میں بھی شجر کاری اور لگائے گئے درختوں کی حفاظت اور نگہداشت کے کلچر کو ترقی دیں۔ یہ اقدامات اٹھانا ہماری قومی ذمہ داری ہے اور علاقائی اور عالمی ماحولیاتی بقا کیلئے اشد ضروری ہیں۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔