تحریر: پروفیسر عامرزریں

پاکستان میں چند ماہ سے اور بالخصوس ماہِ رواں کے اوائل سے انٹرنیٹ صارفین کو انٹرنیٹ سروسز میں شدید تعطل کا سامنا ہے اور اس کی وجوہات ابھی تک مبہم ہیں۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تعطل ہے جو صرف جنوبی ایشیائی ملک میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا، فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی پاکستان میں صحیح طریقے سے کام نہیں کر پا رہے۔ ملک کی کاروباری برادری اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے الزام لگاتے ہیں کہ انٹرنیٹ آمدورفت کی نگرانی کیلئے حکومت کی تیز تر کوششوں کے نتیجے میں انٹر نیٹ سروسز کی ملک گیر سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس سے لاکھوں بلکہ اربوں روپے کے نقصانات ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا بیان سامنے آیا ہے کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کیلئے تیز ترین کوششوں کے نتیجے میں ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس سے نقصانات ہوئے۔
وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (VISPAP) کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ بہت سے کاروبار دوسرے ممالک میں اپنے آپریشنز کو منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ پی ٹی اے (PTA) سمیت متعلقہ حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیں پچھلے دو ہفتوں میں ڈیٹا ٹریفک پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کریں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے مطابق انٹر نیٹ سروسز میں اس وقت سست روی کا ذمہ دار ممکنہ تکنیکی خرابی ہو سکتی ہے۔
انٹرنیٹ کو کبھی بھی سست نہیں ہونا چاہیے، ہم پاکستان میں 5G ٹیکنالوجی لانے کی بات بھی کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، اور زیادہ ”انٹرنیٹ“ رفتار کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ وزیر برائے آئی۔ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فائر وال لگانے کا تناسب ختم کردیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ انٹرنیٹ سیکیورٹی کو بڑھانے کیلئے پوری دنیا میں ایک معمول کی مشق تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پہلے بھی ویب مینجمنٹ سسٹم چلایا جا رہا تھا جسے اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ ”یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ سائبر سیکیورٹی حملوں کے پیش نظر ایسے اقدامات کرے جس سے اس ملک کو گزرنا پڑا ہے۔”
یہ فائر وال کیا ہے؟ فائر وال ایک نیٹ ورک سیکیورٹی ڈیوائس، فزیکل یا سافٹ ویئر ہے، جو نیٹ ورک سے آنے والی اور جانے والی ٹریفک کی نگرانی، بدنیتی پر مبنی حملوں کو روکنے اور سیکیورٹی پالیسیوں اور قواعد کو نافذ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے نیٹ ورک، صارفین اور اس سے آگے انٹرنیٹ کے درمیان رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ فائر وال فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا آنے والی اور جانے والی انٹرنیٹ ٹریفک کو وہاں سے گزرنے دینا ہے یا کہ نہیں۔ یہ حفاظتی نظام ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، یا دونوں کے مجموعہ میں بنایا جا سکتا ہے۔ ”فائر وال” کی اصطلاح درحقیقت آگ پر قابو پانے کیلئے بنائی گئی عمارتوں کے درمیان یا درمیان میں دیواریں بنانے کے ایک تعمیراتی عمل سے مستعار لی گئی ہے۔رابطوں کی دُنیا میں فائر والز 25 سالوں سے نیٹ ورک سیکیورٹی میں دفاع کی پہلی لائن رہی ہیں۔
فیس بک اور واٹس ایپ جیسے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز گزشتہ چند ہفتوں سے سخت متاثر ہوئے ہیں، صارفین نے پیغام رسانی اور سوشل میڈیا ایپلی کیشنز تک رسائی میں سست روی اور مشکلات کی شکایت کی ہے۔ کچھ صارفین نے قیاس کیا ہے کہ یہ رکاوٹیں حکومت کی طرف سے صارفین اور چند سیاسی پارٹی صارفین کی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے فائر وال نصب کرنے کا نتیجہ تھیں۔ جبکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس بات کی تردید کی تھی کہ یہ مسئلہ فائر وال کی وجہ سے ہوا اور کہا کہ اسے ابھی تک انٹرنیٹ میں رکاوٹ سے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
رابطوں میں اس تکنیکی مسئلے کے باعث کاروباری برادری سے منسلک لاکھوں پاکستانی،کاروباری دستاویزات شیئر کرنے سے لے کر کاروباری ڈیل کرنے تک، ڈیجیٹل طور پر بات چیت کرنے کیلئے جدوجہد کر تے رہے کیونکہ ملک کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ اور ڈیٹا سروسز سست ہو چکی ہیں۔حکام سست روی کیلئے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ مسئلہ ملک بھر میں انٹرنیٹ فائر وال کی تعیناتی سے پیدا ہو سکتا ہے جس کا مقصد آن لائن مواد اور ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فائر وال کی تعیناتی دُنیا بھر میں بہت سے ممالک جیسے چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک سیکوریٹی مقاصد کیلئے فائر وال استعمال کرتے ہیں۔ چین کی عظیم فائر وال کو قومی فائر وال کی سب سے مشہور مثال مانا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں فائر وال کی تعیناتی کے باعث پیدا ہونے والا یہ مسئلہ، جو کئی ہفتے پہلے شروع ہوا تھا، حالیہ دنوں میں مزید بگڑچکا ہے۔ اس مسئلہ کی سنگینی کے باعث کئی ایک پرائیوٹ کاروباری ادارے اور افراد مالی طور پر بڑے نقصان سے دوچار ہوئے اور اُن کے گاہکوں (Clients)کا تناسب بھی کم ہوا ہے۔ DataReportal.com کے مطابق، 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تقریبا ً 11 کروڑ پاکستانیوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ ملک میں تقریباً 18 کروڑ فعال سیلولر کنکشن ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جولائی 2024 میں ختم ہونے والے مالی سال میں ملک کی آئی ٹی برآمدات کو 3.2 بلین ڈالر تک پہنچا دیا۔
اگست 15 کو ایک سماعت کے دوران، سیکرٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ وہ موبائل آپریٹرز سے صورتحال کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔ لیکن انٹر نیٹ سروسز میں کمی صرف موبائل ڈیٹا استعمال کرنے والوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ میڈیا کو دیئے گئے ایک بیان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے اتحاد (ISPs) نے کہا کہ انٹرنیٹ کی رفتار 30% سے 40% تک گر گئی ہے جو کہ ”ڈیجیٹل اکانومی کو معذور کر رہی ہے۔”
وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (WISPAP) نے کہا، ”بہت سے لوگ چھوٹے ISPs کو چھوڑ رہے ہیں کیونکہ وہ سروس کے خراب معیار کو مزید برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم پاکستان سے کاروباروں کا بڑے پیمانے پر اخراج دیکھنے میں آئے گا۔” ویسپیپ اتحاد نے فائر وال کا ذکر کئے بغیر انٹر نیٹ سروس کے معیار میں کمی کا ذمہ دار ”سیکیورٹی اور نگرانی” میں اضافہ کو قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی معاشی ساکھ اور حالت اور متاثر ہو گی۔ اربوں ڈالر کا مقروض مُلک اس نقصان اور مزید معاشی تنزلی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ویسپیپ کے متعلقہ عہدیداران کا کہنا ہے کہ ان کے اتحاد
کے اراکین صارفین کی شکایات سے دوچار ہیں، اس ضمن میں حکام کو کم از کم ایک ٹائم فریم بتانا چاہیے جو ہم اپنے گاہکوں کو دے سکیں کہ اس صورت ِ حال میں کب تک بہتری آئے گی۔ جبکہ حکومت سیکورٹی کو بڑھانے کے اپنے عزائم میں ثابت قدم ہے۔ سرورز (Servers) پر فائر وال کو تعینات کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں جو بڑی بین الاقوامی کمپنیاں استعمال کنندگان کے قریب مواد کو ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ یہ حکام کو کسی فرد کے ڈیٹا تک گہری رسائی اور ان کی آن لائن سرگرمیوں پر کنٹرول فراہم کر سکتا ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ فائر وال صرف سائبر سیکیورٹی ٹول ہے۔

ملک بھر میں فائر وال سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے معروف براڈکاسٹنگ ادارے وائس آف امریکہ( VOA)کو بتایا کہ یہ سسٹم – چین سے حاصل کیا گیا اور وزارت دفاع کے ذریعے نصب کیا گیا۔ یہ نظام پاکستان میں کیبل لینڈنگ اسٹیشنوں پر قائم ہے، جہاں زیر سمندر انٹرنیٹ ڈیٹا کیبل کسی ملک کے انٹرنیٹ سسٹم سے ملتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فائر وال، ڈیٹا فراہم کرنے والوں کے استعمال کردہ سسٹمز پر بھی رکھا گیا ہے، پاکستانی حکام کو انفرادی صارف کی آن لائن سرگرمیوں اور وہ کہاں سے کام کر رہے ہیں کے بارے میں معلومات دے سکتا ہے، جس سے ہدف کی نگرانی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو فائر وال ایک نیٹ ورک سیکیورٹی ڈیوائس ہے جو نیٹ ورک تک خطرناک اور نقصان دہندہ عناصر کی رسائی کو روکتی ہے۔ یہ خطرات کی شناخت اور بلاک کرنے کیلئے حفاظتی قواعد کے ایک سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے آنے اور جانے والی ٹریفک کا معائنہ کرتا ہے۔ تکنیکی اصطلاح میں فائر وال فزیکل ہارڈویئر، ڈیجیٹل سافٹ ویئر، سافٹ ویئر بطور سروس (SaaS) یا ورچوئل پرائیویٹ کلاؤڈ ہو سکتا ہے۔ فائر وال کی تنصیب سرکاری، نجی اور عسکری حوالوں سے تو فائدہ مند ہے۔ لیکن متعلقہ سیکٹر، اداروں اور صارفین کو اعتماد میں لئے بغیر اس پراجیکٹ پہ کام کرنا مناسب نہیں تھا۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں حقوق کا کون خیال کرتا ہے۔ با اختیار اور طاقت ور اپنی مرضی اور منشا عوام پر با آسانی تھوپ کر اپنے مفادات باآسانی حا صل کرکے یہ جا، وہ جا۔ اس تمام صورت حال میں، ملک بھر میں ہر طرح کے ادارے جو اپنے روزمرہ کے کاموں میں انٹرنیٹ سے منسلک ہیں، ان میں بے یقینی اور بد گمانی پائی جاتی ہے۔ اور یہ صرف اس لئے ہے کہ تمام متعلقہ اداروں اور عوام کو بے خبر رکھ کر اس بڑے پراجیکٹ پر کام شر وع کردیا گیا ہے۔ اور انٹرنیٹ سروسز میں اس خلل اور تعطل کے باعث بڑے پیمانے پر ملکی اور بین الاقوامی رابطوں، معیشت، صنعتی،تعلیمی اور صحت، غرض کئی ایک پلیٹ فارم پر اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اکیسویں صدی جو، ”رابطوں کی دُنیا“ ہے، اس دور میں اس طرح کی سرگرمی کسی طور پر بھی قابل ِ قبول نہیں ہوسکتی۔ جب تک یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی اس وقت تک اس مسئلے کے حل کیلئے یقینا تسلی بخش پیش رفت ہوچکی ہوگی۔ یا پھر الیکڑانک میڈیا پر کوئی اور ”بریکنگ نیوز“ اس قومی مسئلے کی بازگشت کی شدت کو دھیما کر چکی ہوگی۔ خُدا خیر کرے!

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading