تحریر : عامر زریں
میں وہ آدھی گواہی ہوں جس نے پوری گواہی کو جنم دیا یہ دانشورانہ اقتباس ہے ہمہ جہت معروف شاعرہ، ماہرِ تعلیم، مترجم، درویش صفت اور شفیق معلمہ جنہیں دُنیائے سخن ”پروفیسروکٹوریہ پیٹرک امرت“کے نام سے جانتی تھی۔ مورخہ 3 /اکتوبر 2024ء کی شب اپنے پختہ ا یمان میں 80 برس کی زمینی مسافت کے بعدراہی ِ مُلک عد م ہوئیں۔ ادبی اور سماجی حلقوں میں اُن کی رحلت کی خبر انتہائی رنج و غم سے سنی گئی۔ موت برحق اور اٹل حقیقت ہے۔ انسان جو عورت سے پیدا ہوا ہے تھوڑے دنوں کا ہے۔ کچھ عرصہ سے اُن کی علالت کی خبریں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پہ گردش کررہی تھیں۔ اور اسی حوالے سے اُن کی صحت یابی اور تندرستی کے لئے دعاؤں کی درخواست بھی کی جارہی تھی۔ لیکن زندگی کی جو حدود کاتبِ تقدیر نے قائم کردی گئیں ہیں انسان ایک لمحہ اورساعت اُن سے تجاوز نہیں کرسکتا۔
پیشہ کے اعتبار سے پروفیسر وکٹوریہ شعبہء تعلیم سے وابستہ رہیں۔ کنئیرڈ کالج لاہور اور ایف سی کالج، لاہور جیسے معروف تعلیمی اداروں سے منسلک رہیں۔ شخصی اعتبار سے ہمہ جہت صفات کی حامل اور وسیع المطالہ تھیں۔اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی مختلف اصناف میں لکھتی رہیں۔ وضع داری، رکھ رکھاؤ، مروت اور فرض شناسی جیسی خوبیاں اُن کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ راقم کا اُن سے رابطہ ٹیلفونک ہی رہا۔ لیکن اُن سے صوتی ملاقات کا تاثر بھی ایسا ہی تھا کہ جیسا بنفس نفیس اُن سے بات چیت ہورہی ہو۔ اس حوالے سے ان کی شخصیت سے وابستہ بہت سی باتیں ان کی زبانی معلوم ہوئی۔ پہلے پہل تو اُن کی ادبی تخلیقات لاہور اور دوسرے شہروں سے شائع ہونے والے جرائد و رسائل کی وساطت سے راقم کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ بعد ازاں انٹر نیٹ ٹیکنالوجی کے باعث آن لائن مشاعروں اور مباحثوں کے پروگراموں کے حوالے سے ان سے شرفِ ملاقات حا صل ہو سکا۔
اُن کی وفات پر کئی ادبی و سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی ادبی و تعلیمی خدمات کو سراہا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ چند کا ذکر ملاحظہ ہو۔کچھ لوگ اُن دستکوں کی طرح ہوتے ہیں جو غیر موجودگی میں زیادہ سنائی دیتی ہیں۔
(آفتاب جاوید…… دانشور، شاعر)
میری بہت محترم استاد اور معروف شاعرہ وکٹوریہ پیٹرک امرت اب اس دنیا میں نہیں رہیں ایف۔ سی کالج لاہور میں ایم۔اے اردو کی استاد تھیں۔ یہ مسکراتا چہرہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان کی نظم ”آدھی گواہی” پر انھیں گورنر پنجاب کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی بیٹی حنا پیٹرک بھی ایف۔ سی کالج شعبہ اردو میں استاد ہیں اور میں ہر روز پوچھتی ”ماں کیسی ہیں ”۔ اور وہ ساری صورتِ حال سے آگاہ کرتی۔ آج صبح کہنے لگی کہ اماں سے کہا ہے آرام کریں سو جائیں رات بھر جاگ کے گزاری ہے۔ کیا خبر تھی کہ ہمیشہ کیلئے سو جائیں گی۔
(ڈاکٹر عابدہ بتول)
جن سے دھرتی کی مانگ روشن ہو ذرے ذرے وہ آفتاب ہوتے ہیں مر کے مٹتے نہیں ہیں اہل صفا زندگانی کا باب ہوتے ہیں
منفرد اور حساس مزاج شاعرہ اور ادیبہ محترمہ وکٹوریہ امرت پیٹرک ہم سے جدا ہوگئیں موصوفہ ہی کے اشعار ہماری تسلی اور امید کیلئے آج انکی رحلت پر ہمیں دہرانے پڑ رہے ہیں موصوفہ قلم قبیلے ادبی و فکری مجالس اور نشستوں کی بڑی رونق اور اہل دانش کی ایک بڑی علامت جانی جاتی تھیں انکی فکری نظری اور قلمی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہیں۔انکی حیات ابدی اور سوگواران کی تسلی کی دعا کے ساتھ دعا گو۔
(گمیلی ایل ڈوگرہ……………………مضمون و کالم نگار)
آہ! پروفیسر وکٹوریہ پیٹرک
بچپن میں ”کاریتاس’ستونِ حق،شاداب“ اور دیگر موقر جرائد میں جب جب پروفیسر وکٹوریہ پیٹرک کا نام پڑھا یہی سوچا کوئی سسٹر(راہبہ) ہیں۔اور کوئی تین چار سال پہلے ہی جب پتا چلا کہ پروفیسر صا حبہ کی بابت میرا یہ اندازہ بالکل غلط تھا۔بچپن سے اُنکو پڑھتی رہی ہوں، تو یُوں کہہ لیجیے بچپن سے ایک روحانی سا تعلق محسُوس ہوا۔ہاں لیکن اسے میری بدقِسمتی کہیے کہ میری نہ کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی کبھی بار ہاں انکے ساتھ ایک لائیو مشاعرہ پڑھا اور بس، میرے پاس اُنکے ساتھ پڑھا ایک یادگار مشاعرہ ہے۔اسکے علاوہ نہ تو کوئی ملاقات نہ ہی کوئی تصویر جسے یادگار کے طور پر پاس رکھوں۔ہاں لیکن پروفیسر صاحبہ آپ کی یاد آپ کی شاعری ہمیشہ پاس رہے گی، ساتھ رہے گی۔ خداوند آپکے درجات بلندفرمائیں، آمین۔
(پنجابی و اردو شاعرہ…………زریّں منور)
آہ! وکٹوریہ پیٹرک امرتّ
ہائے اک اور ساتھ چھوٹ گیا کر کے عالم اداس روٹھ گیا
عہد تھا ایک زریں عہد وفا تھی مشیت سو وہ ٹوٹ گیا
سفر وکٹوریہ پیٹرک تمام ہوا ہم سے کیا کیا ہے وقت لوٹ گیا
یاد باقی ہے تو بھی زندہ ہے جو غبارہ تھا سو وہ پھوٹ گیا
شاعر، ادیب، دانش ور، معلم پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم صلیبی
۔3/اکتوبر کو کلیسیائے پاکستان ایک نہایت شفیق، نرم دل، عظیم اور فقید المثال ہستی سے محروم ہو گئی ہے۔۔ مسز وکٹوریہ پیٹرک 3/اکتوبرکو اپنا زمینی سفر مکمل کر کے خداوند تعالیٰ کی جلالی حضوری میں داخل ہو گئی ہیں۔ آپ نہ صرف شعر گوئی اور تدریسی خدمات میں اپنی مثال آپ تھیں، بلکہ ایک زبردست ترجمہ کار بھی تھیں۔MIK کے متعدد مسیحی ناولوں اور کہانیوں کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ اردو زبان و ادب سے وابستگی کی وجہ سے آپ تراجم میں جان ڈال دیتی تھیں، یہاں تک کہ انگریزی شاعری کو بھی اردو شاعری میں ڈھالنے کی مہارت رکھتی تھیں۔ دیگر اشاعتی ادارے بھی آپ کی عظیم خدمات سے مستفید ہوتے رہے۔ آپ کی ممتا بھری شفقت، قدردانی اور ہمت افزائی کو فراموش کرنا میرے لئے ممکن نہیں فی الوقت تو مجھے مسیحی کلیسیاؤں میں دُور دُور تک میڈم وکٹوریہ پیٹرک ایسی صلاحیتوں کی مالک خاتون دکھائی نہیں دیتی۔ علم و ادب کے میدان میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔
(یونس عامر………………محقق و دانشور)
محترمہ پروفیسر وکٹوریہ پیٹرک صاحبہ سے میری روبرو ملاقات بہت کم رہی ہے۔لیکن ان کا ہر کام میری راہنمائی کے لئے ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ رہا ہے۔درس وتدریس،گیت نگاری،بچوں کا ادب،خواتیں کی تربیت اور شفقت سے بھرپور لب و لہجہ میرے ساتھ رہا ہے۔ایک لکھاری ہونے کے ناطے ان کی پاکستان کرسچن رائیٹرز گلڈ سے خاص رغبت رہی ہے۔وہ آخری سانسوں تک پاکستان کرسچن رائیٹرز گلڈ کی تقریبات میں شرکت فرماتی رہیں۔بے شک وہ ایک ناقابل فراموش شخصیت تھیں۔
(جاوید یاد شاعر، ادیب، سفر نامہ نگار، مرکزی صدر پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈ)
پروفیسر ڈاکٹر وکٹوریہ پیٹرک امرت کی مطبوعہ تصانیف میں دیپ دیپ اُجالا(شعری مجموعہء کلام) سلام اے وطن (ملی نغمے اور گیت)، پنکھڑیاں (بچوں کی نظمیں)، کوئی کہکشاں تو ہو (شعری مجموعہء کلام)“ شامل ہیں۔ اُن کی غیر مطبوعہ تصانیف میں، ”لہر لہر روشنی اور چاندنی دھواں دھواں (شعری مجموعہ ہائے کلام) شامل ہیں۔
اُن کی رحلت پر مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں نے اُن کی تعلیمی و ادبی خدمات پر انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا ہے
لاہور(تادیب)بانی و مدیرِ اعلیٰ جاویدؔ ڈینی ایل نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ ماہنامہ“نیاتادیب”لاہور، ماہِ نومبر2024ء کا شمارہ مستند ماہرِ تعلیم،معروف شاعرہ، ادیبہ، گیت نگار، افسانہ نگار، ترجمہ کار اور لاتعداد اعزازات کی حامل شخصیت محترمہ پروفیسر وکٹوریہ پیٹرک امرتؔ کے اعزاز میں خصوصی نمبر شائع کر نے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈ (مرکز) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی سالانہ ادبی کانفرنس 2024 ء میں جو کہ 13-12 /اکتوبر کو ہونے جارہی ہے سب سے بڑا حسن کارکردگی ایوارڈ”محترمہ وکٹوریہ پیٹرک ایوارڈ ” کے نام سے منسوب کرے گی۔
پروفیسر وکٹوریہ صاحبہ ایک وضع دار خاتون تھیں۔ انہوں نے درس و تدریس کے شعبہ میں ایک طویل عرصہ گذارا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں اُن کے کتنے ہی شاگرد ہوں گے جنہوں نے اُن سے علم و ادب کا فیض حاصل کیا۔ اُن کی شخصیت اپنے علم و عمل اور ادبی تخلیقات کے حوالے سے نئے لکھنے والوں اور محققین کے لئے مشعل ِ راہ ہے۔اُن کی اِس دنیائے فانی سے رحلت یقینا اُن کے خاندان اور احباب کے لئے صدمہ کا باعث ہے۔جدا ہو جانے والوں کے حوالے سے ناصر کاظمی کیا خوب کہا ہے، ملاحظہ ہو۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے