آج پھر اُسی عزم وجذبہ کی ضرورت ھے۔

 

تحریر: اختر بھٹی

مجھے آج بھی 8 مئی 1998 کا وہ دن یاد ہے جب بشپ جان جوزف شہید کی قربانی نے مسیحی قوم کو ایک کر دیا ۔۔۔۔۔۔ ہر کوئی اپنی سیاسی پارٹیوں اور ذاتی رنجشوں اور اختلافات کو بالا تاک رکھ کر نکلا اور لاہور مال روڈ مسیحی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ میری زندگی کا وہ پہلا موقع تھا جب میں نے اپنی میسحی کمیونٹی کو یوں اپنی ذات اپنے نام اور اپنے ادارے کیلئے نہیں بلکہ اپنی کمیونٹی اور اپنی قوم کے حق کے لئے نکلتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اُس پرامن احتجاج نے اعلٰی ایوانوں کو ہلا کر رکھا دیا اور اسی بوکھلاہٹ کے شکار قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے پرامن مسیحیوں پہ بھرپور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنیگ شروع کردی مسیحی لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کر گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
ہمارے مذہبی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کی تعداد میں مسیحی گرفتار ہوئےاور شاید زخمی ہوئے۔ زمانہ کمسنی و طالب علمی تھا اور قوم کے لئے کچھ کرگزرنے کا جنون بھی اور سب سے بڑھ کر ساتھ میں گرفتار ہونے والوں کا عزم و ہمت دیکھ کر حوصلے اور بھی بلند ہوجاتے ۔۔۔۔۔ لاہور کے چار تھانوں میں مار کھانے کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو زخمی حالات میں جب کوٹ لکھپت جیل شفٹ کیا گیا تو وہاں سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار مسحیوں کا جوش و جذبہ دیکھا کر اور اپنے مذہبی رہنماؤں کا اپنی قوم سے محبت اور اُن کی طرف سے نوجوانوں کی دیکھ بھال دیکھ مجھے اپنے آپ پہ فخر محسوس ہوا کہ میں اُس قوم کا حصہ ہوں جو اپنے حق کے لئے قید و بند کی صعوبتوں سے ڈرنے یا گھبرانے والے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دو دہائیوں سے زائد بعد آج اپنے لوگوں کے حالات دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ وہ متحد ہونا وہ اکٹھ کہاں گیا کس کی نظر لگ گئی۔

اس ایکتا کو اس جنون و جذبے کو ۔۔۔۔۔۔ آج ہر کوئی اپنی اپنی دوڑ میں لگا ہے ایک دوسرے سے اگے نکلنے کی دوڑ دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ کیوں آج کوئی بھی اپنی قوم کے بہتر مستقبل اور اُن کے حقوق کے لئے کسی کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کو تیار نہیں بس اپنے اپنے بینرز جھنڈے لیکر صرف ذاتی مفاد کے لئے نکلتے ہیں یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور دل سے یہی دعا نکالتی ہے کہ خدایا میری مسیحی قوم کو بھی ایسے نڈر بے باک اور قوم پرست لیڈر دے جو اپنے یا اپنے ادارے کے لئے نہیں بلکہ اپنی مسیحی قوم کے حق کے لیے کھڑے ہوں ان کی آواز بئیں موجودہ و آنے والی نسلوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے لئے سوچے۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading