ہم قید میں کیوں ہیں؟

 

تحریر: عامر وٹو

میرے ایک دوست مجھ سے کہنے لگے کہ وٹو صاحب ابھی تو ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم کب جینا شروع کریں گے کیونکہ ابھی تو ہر طرف سے ہم قید میں ہیں- نا جانے کب وہ دن آئے گا کہ جب ہم آزاد ہوں گے اور اپنے پورے پروں کو کھول کر جینا سیکھیں گے- میں نے بات کی وضاحت چاہی تو وہ ہنسنے لگے- اور پھر مجھے کہنے لگے کہ سوچیے گا کہ آپ اپنے لئے کتنا جی رہے ہیں اور پھر مجھے بتائیے گا کہ کیا آپ قید میں ہیں یا آزاد؟

پھر ایک دن روزمرہ کے کاموں کے بعد بستر پر لیٹا تو ان کی یہ بات میرے دماغ میں گونجنے لگی- اور نہ جانے کس لاشعور سے مجھے جواب آنے لگے- واقعی انسان معاشی قید میں جکڑا ہے- اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ انسان سماجی روابط کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان اپنے دوستوں کو خوش کرنے کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان کچھ با اثر لوگوں کی چاپلوسی کرنے کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان جھوٹے دکھاوے کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان اپنے سے اونچے رشتےداروں کی برابری کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان خوبصورت دکھنے کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- انسان تکلفات کی قید میں بھی جکڑا ہوا ہے- اپنے لئے جینے کی وہی چند گھڑیاں ہوتی ہیں جو انسان موت سے پہلے گزارتا ہے-

میں چاہوں گا کہ ایک نظر ہم دیکھ لیں کہ معاشی سماجی یا دیگر قیود کیا ہیں؟ یہ عین ممکن ہے کہ ہم سب کی ایک متوقع آمدنی ہوتی ہے اور کسی حد تک ہمیں اپنے اخراجات کا بھی بخوبی تخمینہ ہوتا ہے- پھر جوں ہی ہم اپنے رشتہ داروں یا پھر دیگر دوست احباب کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں تو وہاں پر کمپیریزن شروع ہو جاتے ہیں- فلاں شخص نے اتنی دیر میں مکان بنا لیا فلاں شخص نے اتنی دیر میں فلاں گاڑی لے لی- فلاں شخص نے اپنے بچے کو یہ الیکٹرانک گاڑی لے کر دے دی- آپ کب اپنا مکان بنا رہے ہو؟ آپ کب گاڑی لے رہے ہو؟ یہ اچانک کے سوالات ہمیں اپنے آپ سے دور کر دیتے ہیں- ہم آزاد ہو کر اپنی پلاننگ نہیں کر سکتے- ہم دنیا کے ان پیرامیٹرز کو پورا کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں جو اکثر اوقات ہماری پہنچ سے دور ہوتے ہیں- یہی معاشی قید ہے- پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے معاشرے کے کچھ با اثر لوگوں کی غلامی میں رہتے ہیں- جو ہر بات پر ہمیں ڈکٹیٹ کرتے ہیں- وہی اس بات کو طے کرتے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے کہاں نہیں- کس کا ساتھ دینا ہے کس کا نہیں- اور وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے کیا برا- بعض اوقات ہم اپنے انتہائی ضروری کام چھوڑ کر ان کا حکم بجا لاتے ہیں- ہم اپنے بچوں اپنی فیملی سے زیادہ ان کو ترجیح دیتے ہیں دراصل یہی سماجی قید ہے-

اگر یہ قید ہے تو آزادی کیا ہے؟
اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر چند خوشگوار لمحات گزار لینا آزادی ہے- اپنی پسند کی مووی دیکھ لینا آزادی ہے- خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی بلا ناغہ شکر گزاری کرنا آزادی ہے- تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے لوگوں سے تعلقات تو ہر کوئی بنانا چاہتا ہے اپنے سے کمزور لوگوں کو دیکھ کر ان کا ہاتھ پکڑنا آزادی ہے- بچوں کیلئے اپنی پسند کے کپڑے اور اپنی پسند کے کھلونے لینا آزادی ہے- بچوں کو اپنی مرضی سے سکول بھیجنا آزادی ہے- اپنی منزل کا تعین اپنی مرضی سے کرنا آزادی ہے- کسی دوسرے کی خاطر اپنی ترجیحات کا قتل نہ کرنا آزادی ہے- اور ہاں اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مسکرا کر شکر گزاری سے جینا آزادی ہے-

 

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading