وطن تو میرا بھی خوبصورت ہے

 

تحریر: عامر وٹو

ہو سکتا ہے کہ ہم ہزاروں روپے لگا کر نرسری سے پودے خرید کر نہ لگا سکتے ہوں- کیونکہ موجودہ غیر موافق معاشی حالات کے سبب ہماری قوت خرید پہلےسے ہی بری طرح متاثر ہے- یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم سولر سسٹم نہ خرید سکتے ہوں-اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اپنے لیے اچھی گاڑی یا گھر نہیں بنا پا رہے-ہم میں سے اکثر ایسے نوجوان ہوں گے جنھیں لائف سیٹل کرنے کے لیے ایک آئیڈیل قسم کی جاب نہیں مل پا رہی- اور آبادی کا ایک خاصہ حصہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے-میں جس بھی دوست یا آدمی سے ملتا ہوں مجھے یہی سننے کو ملتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک چھوڑنے کی کوشش کی جائے-
بہت معذرت کے ساتھ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا ہم اس ملک کو چھوڑنے سے پہلے اسے خوبصورت نہیں بنا سکتے-جیسے ہم اپنے گھروں میں چھتوں پر سیلنگ کرواتے ہیں اور دیواروں پر خوبصورت گرافکس اور پی وی سی پینلنگ کروا لیتے ہیں-ہم اپنے گھر کا فرش خوبصورت پتھروں سے مزین کر لیتے ہیں-ہم کسی نہ کسی طرح اپنے گھر کو خوبصورت دکھانے کے لیے ہر طرح سے اس کو ڈیکوریٹ کرتے ہیں- ہم اپنے سیٹنگ روم کو خوبصورت پردوں سے سجاتے ہیں-مگر افسوس کہ ہمارا یہ سلسلہ ہمارے گھر کی چوکھٹ پر ختم ہو جاتا ہے-
انویسٹرز کے لیے آج سب سے زیادہ منافع بخش انویسٹمنٹ ہاؤسنگ کالونیز یا ریئل اسٹیٹ کی ہے-ہر قسم کی سہولیات سے بھرپور رہائشی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں- میں حیران ہوتا ہوں کہ آپ نے کبھی نہیں سوچا ایک جگہ پر ایک خوبصورت کالونی بنائی جا رہی ہے اور بالکل اس سے ملحقہ ایک ایسی کالونی ہوتی ہے جس کی مالیاتی قدر انتہائی کم ہوتی ہے- ہم کسی بھی طرح سے بہت زیادہ پیسہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے پیسے سے کسی اعلی درجے کی کالونی میں گھر بنانا چاہتے ہیں- لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کالونی سے باہر نکل کر ہم پھر اسی ماحول میں آ جاتے ہیں جو کہ ہم سب کا سانجھا ہے-

کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہم ماحول کو کس طرح سے صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں؟ہمیں سب کچھ معلوم ہے-ہمیں معلوم ہے کہ محلے کی دکان کی بجائے منڈی سے سبزی لائیں گے تو سستی پڑے گی-ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون سا گوالا صحیح دودھ دیتا ہے-حتی کہ ہمیں اپنے کپڑے جوتے اور دیگر اشیاء خریدنے کے لیے کہاں کہاں پر ڈسکاؤنٹ چل رہا ہے سب معلوم ہوتا ہے-
پھر ایسا کس طرح ممکن ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ ہمارے استعمال میں آنے والے پلاسٹک کے بیگ کسی بھی طرح ٹھکانے نہیں لگ سکتے- ہماری گلی محلے کے نالیوں میں رکے ہوئے پلاسٹک بیگ (شاپر) امریکہ ،کینیڈا یا کسی یورپین کنٹری کے لوگوں نے نہیں پھینکے-وہ میں نے اور آپ نے پھینکے ہوئے ہیں- ریلوے ٹریک کے ارد گرد کوڑے کے ڈھیر کسی دوسرے ملک کے باسیوں نے نہیں لگائے یہ میں نے اور آپ نے لگائے ہوئے ہیں- جعلی دودھ بنانے کا فارمولا کسی دوسرے ملک کے شخص نے نہیں بتایا یہ ہم میں سے کسی نے ایجاد کیا ہوا ہے- کیا ہمیں خوبصورت ترین ملکوں کے لوگ آ کر روکتے ہیں کہ ہم اپنی سڑکوں کے ارد گرد درخت نہ لگائیں-کیا پان کھا کر سڑکوں پر تھوکنا کسی اور ملک کے باشندوں نے سکھایا ہے-بائیک پر جاتے ہوئے سگرٹ پی کر بغیر پیچھے دیکھے ہوئے سڑک پر پھینک دینا ہمیں کس نے سکھایا ہے-ریڈ سگنل پر ادھر ادھر دیکھ کر گاڑی بھگا دینا کس نے سکھایا ہے؟ لائن پر لگنے کی بجائے اپنا اثر و رسوخ دکھا کر کسی بھی آفیسر سے دوسروں سے پہلے اپنا کام نکلوانا ہمیں کس نے سکھایا ہے؟ اچھے پھل کے پیسے لے کر اس میں گلے سڑے بھی ڈال دینا ہمیں کس نے سکھایا ہے؟
اگر میں ایسے ہی سوالوں کو جاری رکھتا جاؤں تو میرا خیال ہے یہ تحریر کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی-

ہمیں ضرور یہ ملک چھوڑ دینا چاہیے-لیکن اس سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اس کے لیے کیا کیا ہے؟ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کو کیا دیا ہے؟ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھایا ہے؟ خدا کے بندو ! یہ وہی ملک ہے جس نے ہم سے کبھی گلہ نہیں کیا- ہم نے اس دھرتی کو کس کس طرح سے ٹارچر کیا لیکن اس نے اف تک نہیں کیا-
جہاں اپ نے لائف اور کیریئر کے لیے اتنا سوچا ہے-وہاں تھوڑا سا اس دھرتی کے لیے بھی سوچ لیں- اگر ہم ٹھان لیں کہ ہم پلاسٹک بیگ کی جگہ پر کپڑے کا تھیلا استعمال کریں گے تو ہمارے ارد گرد کا ماحول پلاسٹک بیگ سے پاک ہو سکتا ہے-ہم گاڑی یا بائیک چلاتے وقت پان کھانے کے بجائے کسی جگہ بیٹھ کر جہاں ہمارے پاس مخصوص ڈسٹ بن موجود ہو وہاں پر کھا سکتے ہیں-ہم سفر کرتے ہوئے ٹریفک رولز کی پاسداری اسی طور سے کر سکتے ہیں جس طرح ہم مغربی ممالک میں جا کر کرتے ہیں-ہمارے ملک میں کسی غذائی اجناس کی قلت نہیں ہے ہم خالص دودھ بھی پیدا کر سکتے ہیں خالص مصالحے بھی فروخت کر سکتے ہیں اس کے لیے محض ہمیں اپنے ارادوں کو پاک کرنا ہوگا-جہاں تک ممکن ہو سکے ہم نیم ،پیپل اور شیشم کے درخت لگا کر زیادہ سے زیادہ اکسیجن پیدا کر سکتے ہیں-ہم سفر کے دوران گاڑی میں اپنے ساتھ مختلف پھلوں اور درختوں کے بیچ رکھ سکتے ہیں جو ہم زرخیز جگہوں پر پھینک سکتے ہیں- ہمیں اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھنا ہوگا-کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ اپنے ارد گرد کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے تو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس کو آلودہ کریں۔ اور ہمیں یہ کبھی بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ تبدیلی اچھی سوچ سے نہیں بلکہ اچھے عمل سے آتی ہے-
اپنے معمولی سے تجربے کے باوجود یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں اگر ہم عملی طور پر اس ملک کو خوبصورت بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو آنے والے دس سالوں میں یہ دھرتی پر آباد خوبصورت ترین ملکوں میں سے ایک ہوگا-

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading