آج کل جہاں بھی بیٹھیں،جو بھی ٹی وی چینل آن کر یں آپ کو ایک طرح کی گفتگو زیر بحث نظر آئے گی کہ الیکشن میں جیتے گا کون ہارے وغیرہ وغیرہ ،ہر طر ف ایک سیاسی جوڑ توڑ اور گرما گرمی نظر آئے گی، امیروں کی گاڑیاں غریبوں کے محلوں میں مٹی اور دھول اُڑاتی نظر آئیں گی، اب جہاں ایک طرف سیاسی مینڈک، سڑکوں اور گلیوں میں نظر آرہے ہیں وہاں ہم عوام بھی اپنے گلوں میں گنگرو باندھے اور پاؤں اور ماتھوں میں مہندیوں کے رنگ سجائے قربانی کے بکروں کی طرح سجے نظر آ رہے ہیں، کیونکہ تقریباً تین ہفتے تو رہ گئے ہمیں ذبح ہونے میں،جہاں ہمارے سیاستدان ہمارے متعلق یہ سوچتے ہیں وہا ں ہم بھی تواپنے متعلق کچھ زیادہ نہیں سوچتے، بس یہی کہ کھاو کھابے تے موج مناؤ والی پالیسی اپناتے ہوئے ہماری گلی میں بس ایک دفتر کھولے گا اور مہینے کا سیاسی دفتر چلانے کا خرچا ملے گا،جہاں پرمحلے کے سب نکمے اور ویلے آکر اپنا وقت برباد کرینگے اور چائے کا پیالہ پی کر شام کو اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے، بس یہ ہماری اوقات ہے اور امیروں کا مشن،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا، اورہم من حیث القوم دوسروں پر اپنی تواقعات کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہے کرتے ہیں لیکن کبھی خود اپنے متعلق سوچنا گوارہ نہیں کیا کہ ہمارے حالات کیسے بدلیں گے، ہم نے خود بھی اپنی زندگیوں کو ایک شغل سا بنا رکھا ہے، اور پھر کبھی انقلاب کا انتطار کرتے ہیں تو کبھی سونامی کا، کیا یہ سب سیاسی ڈرامے ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی لائیں گے؟، ایک سیاسی نمائندہ جب الیکشن میں آنے کو علان کر تا ہے تو وہ بھرپور انویسٹمنٹ کے ساتھ آتاہے، وہ اپنی جایئداد، مال وزر اور زمیں داؤ پر لگا کر آتا ہے تو ہم کیسے تصور کریں کہ کل جب وہ کامیاب ہو کر اسمبلی میں جائے گا تو ہمارے حقوق کی بات کرے گا،کبھی ہم نے اپنے علاقے یا حلقے کے نمائندہ سے اس کے اغراض و مقاصد پوچھنا گوارہ کیا ہے؟یا یہ کہ اُس کے سرگرمیاں کس حد تک عوام دوست تھیں، بس ہم خود بھی تو ایسا کرنے سے شرماتے اور گھبراتے ہے اگر ہم وقتی فائدے کو ترجیح دیں گے تو جس کو ہم ووٹ دینے جا رہے ہیں وہ کیسے ہمارے حقوق کی پاسداری کر سکتا ہے؟، ویسے تو اس حمام میں سب ننگے ہیں کیوں کہ ممکنا امیدوار بار بار اپنے شہدا کا کریڈٹ لے رہی ہے ان سے جو بھی سوال پوچھیں یہ جواب میں گھسیٹ کرا پنی ادھوری کارکردگی اور شہیدوں کو لے آئیں گے، آمریت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے، چلیں مانا کہ آمیریت بُری چیز ہے لیکن لوگوں کو کھانے کو تو ملتا تھا،گیس سے روٹی تو پک جاتی تھی،بچوں کو دودھ تو گرم ہو جاتا تھا،بجلی میں بچے تعلیم تو حاصل کر تے تھے، مزدور کی مشین تو چلتی تھی، فیکٹری کا چکہ تو چلتا تھا، غریب نے جمہوریت چائے میں ڈال کر پی نی ہے کیا؟جب غریب نے بھوکے مرناہے تو۔، ہمارے اقلیتی نمائندے کیا بتائیں انکا تو بس اللہ ہی حافظ ہے،ان سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے جی ہم نے پانچ فیصد کوٹہ نہیں کروایا، اقلیتی فنڈ قائم کروایا، یہ لولی پوپ دے دیا بس، اس کرسمس کو جو اقلیتی فنڈ ملنا تھا وہ بھی نہیں ملا، اگر ملا بھی ہو گا تو وہی ”انا ونڈے شرینیاں پوں چوں آپنیاں نوں ”اپنے منظور نظر لوگو ں کو میں خود سینکڑوں خاندانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اس کرسمس اپنے بچوں کوکپڑے تو در کنار کھانا بھی نا بنا سکے، مجھے شرم آتی ہے اپنے ان بھائیوں پر،جن کی گلیوں میں گٹروں کا گندا پانی سالوں نہیں سوکھتااور یہ اسے کرم پھوٹے ایم پی ایز ہیں جو اپنے ہی گھر وں میں اینٹوں پر پاؤں رکھ کر اور ناکوں پر ہاتھ رکھ کر جاتے ہیں، مجھے ان پر غصہ نہیں بلکہ ان کی بے بسی پر ترس آتاہے لیکن کیا کریں یہ اپنے لوگوں کی نہیں سنتے اور قیادت ان کی نہیں سنتی،یہ قوم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں قوم ان کا مذاق اڑاتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو یہ کہتے نظر آتے کہ یار چھڈو سارے وچار ،”کھابے کھاؤ تے موج مناؤ،“