تحریر: امجد پرویز ساحل
چند سال قبل مجھے ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پاکستان سے جان بچا کر بہت سے لوگ پناہ لیے ہوئے تھے ان میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی ناکردہ ظلم کا شکار ہو کر بھاگے ہوئے اور کچھ لوگ مرنے کے ڈرسے قبل از موت وہاں پناہ گزین تھے۔ یہ وہ کلاس تھی جوبیچارے سماج سے تنگ لاہور ائیرپورٹ کے پل صراط کو پار کر کے وہاں پہنچے تھے اِن میں تقریباً ہر مذہب اور مسلک کے لوگ تھے۔ یہ ایسے پناہ گزین تھے جو اپنے ہی دیس سے بچ بچا کر وہاں ایک طرح سے چھپے ہوئے تھے۔
ایک دن میری وہاں غالباً چائینز یا ملائیشین بندے سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی اور بات چیت کرتے کرتے اُس نے کہا۔کیا واقعی پاکستان میں اس قدر لوگوں کی جان کو خطرہ ہے؟کہ لوگوں کو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک بھاگنا پڑا۔اُس نے یک بعد دیگرے دوسرا یعنی ایک ضمنی سوال بھی کر ڈالا آپ بھی تو وہاں رہتے ہیں کیا آپ کو کوئی خطرہ نہیں؟۔مطلب آپ کیوں نہیں یہاں آجاتے؟
بحرحال ایسے سوالات تو اب پوری دنیا کے دماغ میں ہیں کہ پاکستانی اپنے ملک کو چھوڑ کر کیوں بھاگ رہے ہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا! صاحب بہادر آپ کے سوال بھی آپ کی طرح بڑے معصومانہ ہیں۔ اُس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر ہاں۔ جی یہ تو ہے۔
میں نے عرض کیا جناب سنیں کہ پاکستان کے لوگ پاکستان کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اور پاکستان میں واقعی زندگی مہنگی اور موت سستی ہے۔ مزید سمجھانے کی خاطر میں نے کہا؛ جناب ہمارے پاکستان میں زیادہ تر لوگ مرغی کا گوشت سٹوروں سے لیکر نہیں کھاتے، وہاں ہر گلی محلے کے مین بازار میں ایک مرغیوں کی دوکان ہوتی ہے ہماری اکثریت وہاں سے ہی تازہ گوشت ہماری آنکھوں کے سامنے تکبیر پڑھے گوشت کو خرید نا پسندکرتی ہے۔ قصائی کی دوکان پر دڑبے میں پڑی مرُغیاں جب تک ان کی گردن پر چُھر ی نہ چل جائے یہی سمجھتی ہیں کہ وہ زندہ ہیں جبکہ وہ اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوتی ہے اب اُن بیس پچس مرغیوں میں سے کسی کی بار ی پہلے آجائے یہ کسی مرغی کو نہیں پتہ ہوتا۔ بلکل پاکستان میں رہنے والے لوگ بیچارے بھی ایسے ہی ہیں مطلب پاکستان ایک بہت بڑا دڑبہ ہے اور ہم سب وہاں کی مرغیاں یعنی ویسے تو بظاہر حالات بلکل درست دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسا ناگہانی واقعہ کب کس کے ساتھ پیش آجائے یعنی ہم میں سے کس کی باری پہلے آجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔آہ! اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت اور نگہبانی فرمائے۔ مطلب بظاہر چیز ہرروز درست معلوم ہوتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں یہ سب کچھ منصوبہ بندی سے ہو پورے پاکستان بالخصوص پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ایسا عمل کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ جو سب کچھ آپ کودرست لگتا ہے یہ بس لگتا ہے اس میں درست کچھ بھی نہیں۔
مزید بات کو بڑھاتے ہوئے میں نے کہا:پاکستان میں ہر دوسرا بندہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سچا دین دار ہے اس کے لیے اُسے عمل کی ضرورت نہیں بس بلند آواز سے چلانا ہے اور اللہ اکبر کو اونچی آواز سے زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ بس یہی ہمارے ملک کا مزاج ہے۔ وہ گورا میری باتیں غور سے سُن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مجھے تو بتایا گیا ہے اللہ رحمان واالرحیم ہے یہ اُس کے بندے الرحیم کیوں نہیں مانتے اور رحمان والرحیم کے نام پر کیسے کوئی کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک عورت کو دکھا جارہا ہے جس نے غالباً عربی کیلگرافی کی ایک قمیض زیب تن کی ہوئی ہے جس کو مبینہ طور کہا جارہا ہے کہ سعودیہ یا یواے ای سے لیکر آئی تھی۔ حالانکہ وہ صرف عربی میں ”حلوا“ لکھا ہوا تھا یعنی وہ محض ایک ڈیزاین تھا لیکن ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے فیصلے جذبات کی بنیا د پر ہوتے ہیں۔وہ بیچاری عورت بھی سربازار ہمارے متشدد معاشرے کے ہتھے چڑگئی جو بغیر سوچے سمجھے،تحقیق کیے بس ذرا ثواب کی خاطر اس کی جان کے دشمن بن گئے کہ اُس نے خدانحواستہ کوئی بلاسفیمی کی ہے وہ تو کسی نہ معلوم شخص کی فوری کال پر پولیس وہاں پہنچ گئی اور وہ بھلا ہو لیڈی پولیس آفیسر کا جس نے اپنے سکواڈ کے ہمراہ بروقت کاروائی و مداخلت کرکے اس کی جان بچالی اور بپھرے ہجوم سے اس کو بچالیا۔ مطلب یہاں کسی کی بھی مذہب کے نام پر جان لینے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں محض ایک نعرے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ ایسے مذہبی جنونیت کی بھینٹ ہمارے غریب غربا ء سے لیکر وزرا ء اور گورنر تک چڑھ چکے ہیں۔ پھر بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اُلٹا ایسی طاقتوں کو پیسے تقسیم کیے گئے ہیں۔مقتد ر قوتوں سے لیکر سیاستدانوں تک نے انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے کسی نے اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے تو کسی نے ایک ووٹ کی خاطر ایسے تشدد پسند عناصر کے کندے پر ہاتھ رکھا ہے۔ پھر بھی ہمیں ذرا خیال نہیں آیا۔ آپ یہ مت بھولیں اس نفرت کی آگ سے کوئی نہیں بچنے والا جناب بس اپنی باری کا انتظار کریں۔ جب تک آپ ایسی جنونیت کے قابومیں نہیں آتے آپ زندہ ہیں۔ پس دوسرے کی موت پر سیاست کرکے یا دوسرے کی ہلاکت پر تالیاں بجانے والوتم بھی اس شکنجے آسکتے ہو۔ اب بھی اس انتہاپسندی کے جن کو باتل میں ڈال دو ورنہ پھر دیر تو پہلے ہی بہت ہو چکی ہے اور جن ممالک کو تم اپنا آئیڈیل مانتے ہو ذر ا انہیں غور دیکھ لو۔وہ اپنے ملکوں میں ایسی قوتوں کو پنپنے بھی نہیں دیتے یہی وجہ ہے وہ آج کہاں ہیں اور ہم کہاں۔۔۔شائد کے تیرے دل میں ُاتر جائے میری بات۔ پاکستان پایندہ باد۔