تحریر: امجد پرویزساحل
8 مارچ کا دن عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن پوری دنیا میں عورتوں کے مسائل کے حوالہ سے مختلف پروگراموں کاانعقاد کیا جاتا ہے،کہیں سماجی بہبود بالخصوص عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں سیمنارز اور ورکشاپس کرتیں ہیں تو کہیں آگہی واکس ہوتی ہیں بے شک یہ ایک بہترین عمل ہے جس میں معاشرے کی تربیت کا سامان ملتا ہے۔ماضی کی نسبت آج بلکہ دن بدن لوگوں میں آگہی اور شعور بھی آرہا ہے آج کی عورت ماضی کی نسبت آزاد اور خود مختار ہے اور معاشرے میں مرد کے شانہ بشانہ کام بھی کر رہی ہے،ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے،یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن پھر بھی سب کچھ آۂتہ آۂتہ بد ل رہاہے اور درست سمت کی طرف جار ہا ہے لیکن ابھی بہت سی منازل طے کرنا باقی ہیں پاکستان میں عورتوں نے غیر معمولی کام کیے ہیں جو پاکستان کے سخت اور قدامت پسند معاشرے میں کرنا آسان نہیں۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود معاشرے میں ابھی بہت کچھ بدلنے والا ہے بہت سی تربیت کی ضرورت ہے ابھی بھی معاشرے بالخصوص پاکستانی معاشرے میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کا درست ہونا بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔آج بھی عورت کووہ تحفظ نہیں جو ہونا چاہیے تھا ابھی آگہی کی اور بھی منازل طے کرنا باقی ہیں اس روشنی کے دور میں بھی ہم زمانہ جہالت سے گزررہے ہیں،آج بھی عورت کو ایک مال ہی سمجھا جاتاہے یا محض اپنی کھیتیوں سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا،ہماری عزت و حرمت کا دارو مدار عورت کی عصمت پر ہے،ساری پابندیاں،ساری بندشیں صرف عورت پرہی کیوں؟ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں عورت یاتو جنسی تسکین کا کوئی سامان سمجھی جاتی ہے یا فحاشی و عریانی کا سبب، وہ منافقین جو عورت کو جلوت میں پیکنک (پردہ) کا پیکج دینے والے خلوت میں آنکھوں کی زبان سے درخواستیں دے رہے ہوتے ہیں،یہ معاشرہ آنکھوں کا جنگل ہے جس سے بچ کر اگر کوئی بیچاری عورت واپس اپنے گھر تک آ جائے تو کسی معجزہ سے کم نہیں۔
ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم ہر بات کے کئی کئی مطلب نکال لیتے ہیں اور اپنا من پسند مطلب نکالنا تو ہمارا قومی وطیرہ ہے مثلاً عورت کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں ننگی ہو کر بازاروں میں گھومتی پھریں اور نہ ہی اس کا مطلب کہ عورت مادر پدر آزاد ہوجائے کہ اپنی اقدار کی دھجیاں بکھیر دے،آزادی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے فیصلے خود کرنے کا حق ہو،آزادی کا مطلب کہ آزاد فیصلے کرے،جو چاہے سیکھے، جوچاہیے سیکھائے،جہاں چاہیے جائے،کہیں جانے کے لیے گھر کے کسی مرد کو سیکورٹی گارڈ کی طرح اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ زندگی کے ہر شعبہ کو اپنانے پر پابندی نہ ہو،آج جبکہ عورتوں کے لیے کچھ شعبہ جات کو مخصوص کر دیا گیا ہے،اب تک جتنا ممکن ہو سکا ہے اور جتنا ہو رہا ہے اس میں ان مردوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے جو عورتوں کی آزادی اور خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں،اگر پاکستان واقعی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے جس ملک میں پچانوے فیصد لوگ اسلام کے پیروکار ہوں تو وہاں تو عورتیں کو گھر اور باہر میں کوئی تمیز کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان بناتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی(ایک خاص طبقے کا نقطہ نظر)جہاں پر لوگ اپنی مرضی سے اسلام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے،جہاں پر دن میں پانچ دفعہ لاؤڈ سپیکروں میں اللہ کو باآواز بلند یاد کیا جاتا ہو وہاں پر عورت کے تقدس کو پامال کرنیکا تصور بھی نہیں ہوناچاہیے،کیونکہ اسلام کے پیروکار یہ مانتے ہیں کہ اسلام ہی وہ دین جہاں عورت کو سب سے زیاد ہ عزت و تکریم دی گئی ہے، اسطرح تو پاکستان میں عورتوں کو پردہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پردہ تو غیروں سے کیا جاتا ہے اپنوں سے نہیں۔ اپنا وطن اپنا گھر ہوتا ہے اور اپنے گھرے میں کوئی نقاب کرکے رہتا ہے؟ پس اگر ہر جگہ ہمارے اپنے ہیں تو پھر پردہ کس سے ہے؟ اگر پھر بھی عورت کو کسی تحفظ کی ضرورت ہے یاابھی تک عورت اپنے آ پ کو غیر محفوظ سمجھتی ہے تو پورے پاکستان کو دوبارہ کلمہ پڑھانے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں یہ جو برا عمل کرتا ہے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا تو پھر کیا باقی پانچ فیصد کی وجہ سے عورت تحفظات کا شکار ہیں؟ آئے دن ٹی وی پر مذہبی علماء فحاشی و عریانی کا واویلہ کرتے دکھائی دیکھتے ہیں،کیاوہ صرف انہی چیزوں کو فوکس میں رکھتے ہیں یا کوئی اور کام بھی کرتے ہیں،آج اگر عورت غیر محفوظ ہے تو اس کی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہماری مذہبی قیادت ہے جو ہماری سوسائٹی کی مناسب مذہب و اخلاقی تربیت نہیں کر پائے،دوسری طرف وہ قوتیں بھی ہیں جو عورت کی آزادی کی آڑ میں عورت کو مردوں کے خلاف شدت پسند ی کی طرف مائل کر رہی ہیں،عورت کے حقوق ملنا چاہییں بلا شبہ عورت ہماری ماں،بہن،بیٹی اور بیوی ہے ان کو پورا پور ا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے فیصلے کر سکیں لیکن اگر عورت میں مردوں کے خلاف زہر بھرنے کو عورت کے حقوق یا آزادی کہتے ہیں تو پھر اس سوچ میں اصطلاحات کی ضرورت ہیں، خدا نے عورت کو مرد کی پسلی میں سے نکالا ہے جس کا مطلب ہے کہ اہمیت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں،نا ہی مرد افضل ہے اور نہ عورت کمتر۔ عورت اور مرد سماج کے دو اہم جز ہیں جن کے بغیر گھر سے لیکر قوم وملک تک کی ترقی ناممکن ہے۔ لہذا ٓئیں ملکر عورت کو وہ مقام دیں جس سے عورت اپنے آپ کو مردانہ سماج میں محفوظ سمجھ سکے نہ کے غیر محفوظ۔
Very good