تحریر: امجد پرویزساحل
ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک غلام ذہن قوم ہیں نسل در نسل غلام رہنے کی وجہ سے ہم آزادی کا مطلب تک بھول چکے ہیں آج بھی ہماری پشت پر جیسے غلام ذہنیت کا جھاڑو بندھا ہوا ہے اب تو جیسے ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں یعنی ہمیں آزادی سے ڈر لگتا ہے جب غلاموں کو اپنی غلامی سے عشق ہو جائے اور زمینی آقا سے محبت ہو تو ایسے مریضوں کو سٹاک ہوم سنڈرم کہتے ہیں تبھی تو ہم باؤلوں کی طرح اپنے لیے آقا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اگر کوئی آقا ہمارے ارد گر نہ ملے تو باہر سے بھی امپورٹ بھی کر لیتے ہیں۔ غلامی پہلےآپ کواندر سےغلام بناتی ہے اور پھر باہر سے آپ خود بخود بن جاتے ہیں اور پھرمزید دوسری تیسر ی نسل تک پہنچتے آپ اپنی شناخت تک بھول جاتے ہیں۔ہم ذرا غور کرلیں تو ہمارے ڈرامے،فلمیں،مطالعہ پاکستانی تاریخ،تعلیمی نصاب اوربزرگوں کی بیٹھک نیز ہر جگہ آپ کو یہی کچھ سننے،پڑھنے اور دیکھنے کو ملے گا کہ ہم تبریزی، افغانی، شیرازی، شیرانی، وغیرہ ہیں مطلب کہ اپنی اصل شناخت ہی بھو چکے ہیں یعنی سیلف دینائل۔
حالانکہ ہم پچھلے چار ہزار سال سے اسی انڈس ویلی کے باشندے ہیں جہاں محبت اور امن بستا تھا۔ ہمارا اپنا ایک نہایت امن پسند اور خوشیاں بھرا کلچر ہے لیکن ہم نے اپنی ہر شناخت مذہب سے جوڑلی ہے ایک حد تک تو یہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن اپنے اصل کو یاد رکھنا اچھی بات ہے ۔ حیرت یہ ہے کہ ہمیں اپنے خطے کے لوگوں میں کوئی بہادری نظر ہی نہیں آتی بہادری قتل کرنا نہیں جان بچانا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے خطہ کے مشاھیر کومحض مذہب کی بنیاد پر پسند نا پسند کر لیا ہے۔ حالانکہ ہماری تہذہب دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے افسوس ہم تو اس کو سرے سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ہم وہ واحد قوم ہیں جنہیں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ لوٹا گیا۔ ضیائی دورکے اسلامی انقلاب کے بعد کبھی ہم نے عربی کلچر کو اپنایا تو کبھی ایرانی عبایا زیب تن کیا اور تو اورہر رمضان کجھوریں اس وجہ سے کم پڑھ جاتی ہیں کہ اس سے روزہ کھولنا ثواب ہے۔ یعنی آج عمرانی دور میں بھی کبھی ترک کلچر پر نعرہ تکبیر بلند کیا تو کبھی عراق کے لیے آنسو بہائے حیرت یہ کہ ایسا سب کچھ باقی مسلم ممالک میں کیوں نہیں؟ حال ہمارا یہ ہے کہ ہم نے اپنی سوہنی دھرتی کے سپوتوں دُلے بھٹی اور نظام دین کو ڈاکوسمجھا تو کبھی بہرام کو ولن بنا کے پیش کیا اورغزنیوں اور مغلوں کو اپنا مائی بات سمجھنے والے آج محمدبن قاسم جیسی شیخصت کو محض مذہب کی بنیا د پر ہیرو سمجھنے پر مُسر ہوگئے ۔
مطلب اتنی لمبی تمحید باندھنے کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کواس قدر زخمی بلکہ چھلنی کر دیا ہے کہ جس میں بھگت سنگھ جیسے انقلابی اور سر گنگا رام جیسے جدید لاہور کے بانی تک کو بھلا دیا ہے۔لالہ لجپت رائے اور راو محمد کھرل جیسے سورموں کا تاریخ میں نام تک (نصاب) مٹا دیا ہے۔ یہ عربوں، مغلوں،ولنددیزیوں،فرانسیسوں اورانگریزوں میں کوئی فرق نہیں سب نے ہماری زمینوں پر قبضہ کیا اور ہمارے لوگوں کو باندھی اورغلام بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اس کے باوجودہم نےاِنہیں اپنے اپنے پسند کے آقا چنا اور اپنی اپنی تاریخ میں ان کے مجسمے بنا کر پوجھنا شروع کردیا اور دھرتی کے اصل وارثوں کو فتویٰ بازی کی نظر کر دیا۔ یہ شیرشاہ سوری یا محمود غزنوی کب سے ہمارے ھیرو بن گئے۔ یہ تو محض قابضین اور فاتحین تھے اس سے زیادہ انہیں کیا کہا جاسکتا ہے۔ان لوگوں نے ہم پر کیا احسان ہے،ان کا ہماری سرزمین کے لیے کیا کنڑری بیوشن تھا؟ جواب کچھ بھی نہیں۔
بچپن سے اگر جھوٹ کی عادت پڑھ جائے تو عمربھر سچ فضول لگتا ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ ہمارے لیے ملک اور آئین محض کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے لیے نیشلزم صرف چودہ اگست کا دن اور جذبہ حب الوطی چھ ستمبر تک محدود رہ گئے ہیں باقی سب فضول اورکفر۔
آج بھی ہمارے حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ملک و قوم کی خاطر جان قربانی کرنے والےغیرمسلم جانثاریوں کو شہید کہا جائے یا ہلاک۔ شادمان چوک جہاں اس دھرتی کے سپوت نے 23 مارچ 1931ء کو ایک انگریز کے قتل پر سزائے موت پر ہنس کے اپنی جان دی تھی اس کو شہید ماننا اور پنجاب کا ہیرو ماننے پر سرکاری طور پر ہماری زنانیں گنگ کیوں ہو چکی ہے بھگت سنگھ ہماری دھرتی کا سپوت تھا اور آزادی کی لڑائی لڑتے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا یعنی آج شاید ہی کسی بچے کو شہید بھگت سنگھ کا نام بھی معلوم ہو۔اپنی آنے والی نسلوں کو جب اپنے مشائیر کا علم نہیں دینگے تو وہ پھر وہاں ہی جانا پسند کرینگے نہ جہاں کے ھیرو ہم نے لاکر اپنی (مطالعہ پاکستانی) جعلی تاریخ میں ٹھونس د یے ہیں، یعنی بغض کا عالم یہ ہے کہ ہمارے لیے اس دھرتی کے سپوت اس لیے ہمارے مشائیر نہیں کیوں کہ ان کے نام مسلمانوں جیسے نہیں؟
مجھے یاد ہے سکول اور کالج کے دور میں ہمارے اساتذہ کرام نہایت منافقت اور معصومیت سے ہمیں مسلمان سائنسدانوں اور اسلامی ھیروز کے بارے میں پڑھاتے وقت غیر مسلم مشائیر کو مکار اور ظالم بتایا کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ کہاکرتے تھے کہ پاک و ہند پر مسلمانوں نے ہزار سال تک حکومت کی ہے جی واقعی یہ سچ ہے لیکن ان ہزار سالوں میں کیا ایساہوا جو ہمیں مغربی ممالک سے ممتاز کرتا ہے سوائے مقبرہ اور محلات کچھ بھی تو نہیں بنا ۔ آپ موجدہ تاریخ کا تصویر مشاہد کر لیں آپ دنگ رہ جائیں گے۔دور کیا جانا آپ ماضی قریب کی تصاویر ہی نکال کر دیکھ لیں ہم خوبصورتی سے بدصورتی طرف ہی گئے ہیں وہ پھر راوپنڈی ہو یا لاہور ہو،چاہے کوئٹہ ہو یا کراچی وہ پرانی تصاویر دیکھ کر حیرت ہی ہوتی ہے کہ کبھی ہمارے شہر کتنے خوبصورت ہوا کرتے تھے۔ واقعی ہم نے اپنےساتھ ظلم کیا ہے ہم نے غلامی سے آزادی تک کا سفر نہیں بلکہ آزادی سے غلامی تک سفر کیا ہے جس پر غور کرتے شرم آتی ہے۔ کاش ہم آج سے ہی سچ لکھنا،سننا اور بولنا شروع کردیں وہ بھی بغیر کسی مذہبی تعصب کے۔ شہید بھگت سنگھ زندہ باد اورانقلاب زندہ باد۔