تحریر: امجد پرویز ساحل
زندگی اچھی بھلی چل رہے تھی لوگ ایک دوسرے کے ہاں آجا رہے تھے بہت سے لوگ تو اپنی روزی روٹی کے سلسلہ میں بھی سرحد پار جاتے اور شام کو واپس آجاتے۔ان سب باتوں کے باوجود کچھ شرپسند عناصر جوہمارے لیے حریت پسندی کی جہدو جہد میں ہفتہ میں ایک دوبار مسجد اقصیٰ والے حصہ میں اپنی کاروائی ڈالتے اور بھاگ کر فلسطین والے حصہ میں آجاتے۔کبھی کبھار تو اسرائیلی سپاہیوں سے دوچار ہو بھی جاتے،اس سے سرحد پار بھی ہمارے مجاہدین کا ڈر رہتا اور اِدھر اپنے ہاں بھی عزت بنی رہتی۔یہ ایک طرح کی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ پچھلی چند دہائیوں سے جاری تھی۔
سات اکتوبر 2023 ء کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا کوئی لگ بھگ پانچ ہزار راکٹ داغے اور بعد میں اسرائیل کی سرحد میں گھس کر اسرائیل کی ناک پر دندی بھی کاٹ دی اور اسرائیل میں گھس کر مر دوں کو مارا عورتوں کو ننگا کر کے گھمایا اور بچوں تک کو گولیاں ماری گئی اور بہت سوں کو باندھی بھی بنا یا۔بلکل اُسی طرح جیسے پچھلے کئی برسوں سے اسرائیلی سپاہی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ یعنی دو سانڈوں کی لڑائی میں گھاس پس رہی تھی معصوم شہری کسی نہ کسی طرح ظلم ستم کا نشانہ بن رہے تھے کبھی حماس کی گولی سے تو کبھی اسرائیلی سپاہی کے گولی سے۔ حماس کے اس ایکشن پر اسرائیل میں ایمرجنسی ڈیکلیر کی گئی اور باقاعدہ سرکاری طور پر جنگ کا علان کردیا گیا۔پھر اسرئیل ایک بپھرے سانڈھ کی طرح فلسطین کی آبادیوں پر چڑھ دوڑا اور فلسطین کی گنجان آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک دفعہ پھر اس جنگ کا آغاز کرنے والے ناجانے کہاں جا کر گھس گئے۔ کہا جاتا ہے یہ لوگ فلسطین کی طرف آبادیوں میں چھپ گئے جو دوسرے معصوم لوگوں کی ہلاکتوں کے سبب بھی بنے۔ حماس جس نے شاید منصوبہ بندی میں یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ہمارے اس حملہ پر جو ری ایکشن آئے گا اس کا شکار سب سے پہلے ہمارے اپنے معصوم فلسطین شہری ہی ہونگے۔یہ لڑائی دراصل حماس نے پہلے چھڑی جس کو بلخصوص پاکستان میں کچھ حلقوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور پاکستان کے سوشل میڈیا پر فتح کے اعلانات تک ہونے لگے گا جو سوائے ہوا میں تلواریں مارنے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ حملے کے چند دن تک تو ہمارے کی بورڈ وارئیرز نے اسرائیل کی نندیں تک حرام کردیں اور جگہ جگہ فتح کے جشن منائے گے۔جیسے ہی سرحد کے دوسری طرف سے ری ایکشن آیا وہ اس قدر سخت تھا جس کے بارے میں شاید بہت سے ممالک نے سوچا تک نہیں تھا یہ جنگ چونکہ نان سٹیک ایکٹر کی ایک سٹیٹ کے خلاف لڑی جارہی تھی اس پر آفیشلی چند ممالک نے براہ راست مداخلت سے گریز کیا اور دھیمے لہجے سے فلسطین پر ہونے والے ظلم پر اپنی مذمت ریکارڈ بھی کروالی۔
بلکل پاکستان نے بھی ٹوٹ پھوٹی سی مذمت کی کہ کہیں بین الااقومی برادری کو برا نہ لگے۔پوری اسلامی دنیا سوائے ایران کے جو نسبتاً دوسرے ملکوں نے گاہے بگاہے اپنی آواز بلند کر تا رہا پھردیکھا دیکھی چند ہفتے بعد پوری دنیا میں فلسطین پر ہونے والے مظالم پر آوازیں اٹھنے لگیں جو کہ واقعی ایک ظلم تھا۔اسرائیل فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہمارے یوٹیوبرز جو پہلے اپنے وی لاگ پر اسرائیل کوناکوں چنے چبارہے تھے اب بے رحم اور ظالم پیش کر رہے تھے بلکہ اینٹر نیشنل کمیونٹی کی بے حسی کو بھی تھمب نیل لگا لگا کر بیان کر رہے تھے۔ اُدھر ہماری مساجد میں بھی فلسطین کے حق میں دعائیں اور یہودیوں کی تباہی کی بد دعا مانگی جار ہی تھی۔
پہلے جو یوٹیوبر مجاہدین اسرائیل کو ناکوں چنے چبانے کے لیے بے قرار نظر آرہے تھے انہیں یاد آرہا تھا کہ اس کے ساتھ نہ تو ہماری کوئی سرحد ملتی ہے اور نہ ہمارے پاسپورٹ ہمیں وہاں جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اب بس اگر آسر ا ہے تو صرف خدا کاکہ وہ کوئی ابابیل بھیجے تو ہمارے لوگوں کی جان کی خلاصی ہو کیونکہ نہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں اتنا دم خم تھا سوائے بدعائیں اور گالیاں دینے کے اور نہ او آئی سی مسلم ممالک کی جماعت کچھ کر سکتی ہے۔
اگر انسان صرف سچ میں زندگی بسر کرلے تو سچائی انسان کو آزاد کرتی ہے ہمارا بس اتنا سا ہی مسلہء ہے کہ ہم سچائی نہ سننے کے لیے تیار ہیں نہ سمجھنے کے لیے اور سچ یہ ہے کہ عقل کی لڑائی ہاتھوں سے نہیں لڑی جا سکتی۔ ہم گولی کا مقابلہ تلوار سے کرنا چاہتے ہیں۔ ڈائیلاگ کی بجائے بدعا سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ ایک غلطی نائن الیون کی ہوئی تھی جس سے ہمارا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا اور ہم نے فری میں اپنے سترہزار لوگ مروائے اور دوسری حماس نے کی جس پر بھی ہم نے لگ بھگ تین سے چار ہزار بچے بوڑے اور عورتیں مروائیں اور بے گھر بھی کروائے۔ ہماری خالی بھڑکوں سے دشمن کاکچھ نہیں بگڑا اُلٹا فلسطین کا نقصان ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
آج ایران نے ایک بار پھر اسرائیل پر میزایل داغے ہیں اسرائیل میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک بچی کے مرنے کے۔اس پر بھی ایک بار پھر ہمارے اندر کے اوریا مقبول جان نے انگڑائی لی ہے اور اپنی فتح اوراسرائیل کی شکست کے شادیانے بجا رہے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ قبل از وقت ہے۔ پس ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم بہادر ہیں کہ مظلوم اگر بہادر ہیں تو آگے جا کر لڑیں، نہیں لڑ سکتے تو اُن معصوموں کوتونہ مروائیں۔یہ جنگ ہے اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ دنیا فلسطین کے حق میں ان کے ساتھ کھڑی ہے حماس اگر مجاہدین ہیں تو ہمارے لیے ہو سکتے ہیں دنیا کے لیے وہ دہشت گرد ہیں اور اگر مجاہد ہیں تو اپنے لوگوں کو تباہی کے جہنم میں ڈال کر چھپتے نہ پھریں بلکہ سامنے آکر لڑے ورنہ ٹیبل پر آئیں بات کریں۔ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ تو خود ایک مسلہ ہے۔ ہماری اس دنیا نے پہلے دو بڑی جنگیں دیکھ لی سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملا۔تیسری جنگ کے خواہش مند یہ بھول گئے ہیں کہ اگر اب کچھ ایسا ہوا تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔نہ ہم نہ آپ اور نہ وہ جو جنگ سے اپنی معشیت چلا رہے ہیں۔ لہذا امن کے بارے میں سوچیں۔پوری دنیا کی خوشحالی امن سے مشروط ہے۔یہاں تک ہمارے پیارے وطن پاکستان کو بھی امن کی ضرورت ہے تبھی خوشحالی آئے گئے۔ تبھی خوشحالی کے متلاشی جو پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں واپس اپنے دیس لوٹ آئیں گے۔ پاکستان پائندہ باد۔