یہ کھانا حلال ھے۔۔۔۔

Amjad pervaiz, AZM Technologies

 

 

تحریر: امجد پرویزساحل

کچھ سال پہلے مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک سوسائٹی میں پلاٹ خریدنے کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق۔پراپرٹی ڈیلر سے گفتگو کر تے میں باتوں باتوں میں سوال کیا! یہاں کسی غیر مسلم کے پلاٹ لینے میں کوئی مسئلہ تو نہیں،حالانکہ یہ ایک عجیب اور غیر ضروری سوال تھا پلاٹ کہیں پر بھی لیا جاسکتا ہے لیکن چند سال پہلے پشاور کے کسی علاقہ میں ایک مسیحی شخص کے سوسائٹی میں گھر لینے کی وجہ سے قتل ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا احتیاطً پوچھ لینا چاہیے بعد میں کسی مسئلہ میں الجھنے سے بہتر ہے پہلے سے معاملات کلیر رہیں۔
پراپرٹی ڈیلر نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور شفقت سے خیر سگالی مصافحہ کرتے ہوئے کہا؛ نہیں جناب ایسی قطعاً کوئی بات نہیں۔ نہ کہ اس سوسائٹی میں بلکہ پورے پاکستان میرا نہیں خیال ایسا کوئی قانون بھی یا ایسا رویہ موجودہ ہو اور ساتھ جملے کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا؛ ”ہمارے تو ویسے بھی مسیحیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور یہاں تک کہ ہم تو ایک ساتھ کھاتے پیتے بھی ہیں“۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اپنے اندر بہت سی کہانیاں،روئیے اور واقعات رکھتا ہے۔ یہ جملہ بتاتا کبھی ہمارے اس خطہ پر چھوت چھات کا راج رہا ہے اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ہم نے دین تو بدل لیے ہیں لیکن روئیے نہیں بدلے بس ان لوگوں نے جگہ بدلی ہے سوچ نہیں۔ پہلے یہ کبھی ہندو کلچر کا حصہ ہوا کرتی تھی اب مسلمان کلچر کا حصہ بن چکا ہے یعنی پاکستان بننے کے بعد ہمارے حصہ جو جو ورثہ آیا تھا ان میں یہ اچھوت چھات بھی شامل ہے۔مطلب ہمارے سماج نے تو جیسے سوچ لیا ہے کہ ”جیسے پڑھے ہیں ویسے ہی پڑھائیں گے“۔
مجھے ان کی معصوم محبت پر حیرت اور روئیے پر ترس آرہا تھا۔ کیونکہ اس نام نہاد احساس برتری نے کس قدر دنیا میں ہمارا تمسخر اُڑیا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ تھوکیں نہ نگل جائیں۔ میں نے جناب پراپرٹی ڈیلر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے انہیں تسلی دی اور ساتھ اس کی توسیع بھی کردی۔ محترم کس دنیا میں رہ رہے ہیں یعنی آپ ہمارے ساتھ کھا پی کر ہمارے اوپر احسان کر رہے ہیں؟ مطلب کہ آپ اس کو کوئی مہربانی گردان رہے ہیں۔ میں نے مزید بات کو بڑھاتے ہوئے کہا؛ پرانے وقتوں کی بات بھائی جان جب آپ ایسی کسی غلط فہمی میں تھے۔ چھوڑیں ایسی باتوں کو اور کوشش کریں آئندہ مت کھائیں بلکہ ایسی بات بھی کسی سے نہ کریں آپ اچھے بھلے انسان ہیں آپ کے قد کاٹھ کو کم کرتی ایسی بات، چھوڑیں؛ یعنی یہ احسان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ موصوف میر ی بات سن کر تھوڑا ٹھٹھر گئے اور معذرت کرتے ہوئے بولے میری کوئی بات اگر بُری لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں جانے انجانے میں کہہ گیا ہوں۔آپ ہمارے لیے بے حد محترم ہے۔
گزشتہ دنوں میری نظر سے ایک وڈیو گزری جس میں ایک وی لاگر کراچی کی ایک مسیحی فیملی کے فوڈ پوائنٹ کو کور کر رہی تھی۔ ویسے تو یہ ایک اچھا گیسچر تھا کہ ایک پاکستان جیسے ملک میں جہاں چوبیس کروڑ میں سے تئیس کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مزے کی بات کہ انہیں یہ قطعاً احساس نہیں ہو رہا ہوتا کہ اس ایسی بات سے کسی کا دل آزار ی ہوری ہے۔مطلب ایسی گھٹن میں اگر کوئی شخص آپ کی حمایت کر رہا ہو تو واقعی اچنبے کی بات تو لگتی ہے۔ جہاں نفرت کرنا ایک فیشن ہو وہاں محبت کرنے والا تو کوئی دیوانہ ہی لگتا ہے۔ اُس لیڈی وی لاگر نے کمال طریقے سے مسیحی فیملی کے فوڈ پوئنٹ کوکوریج دی۔ یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ شاید پاکستان کے مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ ہے یا پھر تعلیم و تربیت کا کوئی حصہ جہاں اُنہیں انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بتایا یا سکھایا جاتا ہے ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم۔ یعنی ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھنا ہے وہ نوکری ہو، عہدہ، تعلقات ہوں یا پھر کچھ خریدنا ہو۔ کیونکہ اُس وی لاگر اور پراپرٹی ڈیلر کی ایک بات تو بلکل مشترک تھے۔ کہ ”یہ کھانا حلال ہے حالانکہ کہ ایک غیرمسلم نے بنایا ہے“۔ آپ یہاں بلاجھجک آئیں۔ بہت مزیدار کھانا ہے، آپ بھی آئیں اور فیملیز کو بھی لائیں بالکل صاف ستھرا اور حلال کھانا ہے۔ اُس نے مزید خاتون سے پوچھا ”آنٹی یہ گوشت اور چیزیں حلال ہیں؟“ آنٹی نے جواب دیاجی گوشت ہم خود بازار سے لیکر آتے ہیں بالکل حلال ہے۔ خاتون نے مزید بتایا کہ فلاں چیز ہم وہاں سے لاتے ہیں فلاں وہاں سے لاتے ہیں۔
اب کون اس نفرت اور تعصب میں پلی جوان نسل کو بتائے کہ محبت سے بڑا مذہب کوئی نہیں اور پوری دنیا محبت سے بھری پڑی ہے چاہیے وہ ممالک مسلمان ہوں یا ہندو،کرسچن،بدھسٹ،یا پھر سیکولر۔کوئی دکانوں پر جا جا کر نہیں پوچھتا کہ کیا آپ مسلم ہیں تاکہ ہم کھا نا خریدنا چاہتے ہیں۔ دنیا نے تو حلال فوڈپوائنٹ تک بنا دئیے ہیں تاکہ مسلم کو حلال کی سہولت میسر آ سکتے۔۔۔۔ کبھی تو ہم دنیا کو محبت اور برابری کی عینک سے دیکھیں۔ خدا ہمیں کھلے دل لوگوں کو گلے لگانے کی ہمت عطا فرمائے۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading