تحریر: امجد پرویزساحل
دفتر سے گھر آتے ہوئے بیگم صاحبہ اکثر پھل لانے کا فرما دیتی ہے۔ایک ذمہ دار شوہر اور مڈل کلاس شہری کے فرائض بخوبی نبھاتے ہوئے میں بھی کوشش کرتا ہوں پھل موسم کا ہی خریدا جائے۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو وہ نسبتاً جیب پر بھاری نہیں پڑتا اور دوسرا طبیعت بھی ٹھیک رہتی ہے۔ بے موسمی پھل کافی مہنگے بھی پڑتے ہیں اور بد مزا بھی ہوتے ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں کے مشاہدے سے معلوم ہو ا ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک بے ایمان قوم ہیں اور خدانحواستہ اگر ہم سے کہیں کوئی ایمانداری سرزدہو بھی جائے تو فوراً تبلیغ تو پھر وٹ پر پڑی ہوتی ہے۔ اپنی دکھاوے کی ایمانداری کے قصیدوں سے کوشش کرتے کہ گاہک ہو کم از کم ایک بار پھر مشرف بہ اسلام کر ہی دیں۔
آج کل پچھلے سالوں کی طرح ایک بار پھر تربوزکے لال ہونے پر بحث جاری ہے۔ دوکاندار اللہ رسول کی قسمیں کھا کھا کر خراب اور کچے تربوز سرخ لائیٹ لگا کر بیچ رہا ہے اور سوشل میڈیا پر تربوزوں کولگے لال رنگ کے انجیکشن پر مُبصرین ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان نظر آ رے ہیں۔ دیکھیں جی اگر تو پاکستان کے کسی بھی سرکاری دفتر میں بغیر رشوت کے مفت کام ہونے کا یہ معجزہ ہو جاے تو سمجھ جائیں تربوز لال رنگ کے انجیکشن سے بچ گئے، اگر سفارش کے بغیر معمولی گوشت کی دوکان سے اچھا گوشت بھی لے آئیں تو سمجھ لیں تربوز لال رنگ کے انجیکشن سے بچ گئے۔ ہوسکتا ہے یہ بات سو فیصد درست نہ بھی ہو لیکن یہ بات تو سچ ہے کہ ہم جھوٹے ہیں بلکہ منافق بھی ہیں۔ ہر دفعہ جب مجھے دفتر سے واپسی پر کوئی موسمی اور سستاپھل لانے کا اتفاق ہوتا ہے تو سنگل ٹائم بھی ایسا نہیں ہوا کہ پورے پیسے دیکر اور جھوٹی قسموں کے بعد بھی میں پھل سہی لایا ہو۔ بات تو اب اتنی بڑھ چکی ہے مختیاریا کہ بیگم شریف کے نزدیک میں انتہائی سست اور لاپروا شخص گردانہ جا چکا ہوں حالانکہ اس میں میری صرف اتنی سی غلطی ہوتی ہے کہ مجھے سے بے ایمانی کے ماہر پھل فروش پکڑے نہیں جاتے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ دوکاندار مجھے الگ بیوقوف سمجھتا ہے اور بیگم صاحبہ الگ۔ ویسے ہوسکتا ہے یہ کہانی میرے اکیلے کی نہ ہو بلکہ گھر گھر یہی حال ہو۔
اپنی مدد کیلئے میں نے کئی بار میرے کزن جو کے خود کو بے حد ہوشیار سمجھ چکے ہیں ان سے بھی مدد لے چکا ہوں یار مجھے تو دوکاندار ٹھگ لیتے ہیں آپ ہی کوئی مدد کرو، مطلب ان سے بھی خراب فروٹ خریدوا چکا ہوں۔ لیکن نتیجہ یہ اخذ ہوا ہے کہ دنیا میں ہم جہاں اور بہت سے انوکھے کاموں میں اوپر والے پہلے نمبروں میں آتے ہیں وہاں اس کمبخت بے ایمانی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم گھر سے حلال ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنا حرام مال بیچ کر آجاتے ہیں۔ بھلے وہ پاکستان ہو یا بیرون ملک ہو، ہم عمرے کے کوٹے پر حج کرنے کی کوشش کرنے والے مکہ میں بھی کسی کو نہیں بخشتے۔ حالت یہ کہ وہاں سب سے زیادہ بھیک مانگنے والی قوم بھی ہم ہی ہیں، آئے روز سوشل میڈیا پر اپنی ذلالت کے وڈیو دیکھتا ہوں۔ بس دعویٰ یہ ہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں ایک سندھ کے کسی علاقے میں مولوی مسجد کے حجرے میں ایک بچے سے زنا کرتے پکڑا گیا، پکڑ جانے پر ہنس رہا ہے ویڈیو میں صاف نظر آرہا وہ جس بات پر اُسے توبہ استغفار کرنا چاہیے تھا اس پر مسکرا رہا ہے کیونکہ اُسے معلوم ہے وہ اپنا یہ عمل شیطان پر ڈال دے گا اور اُسے یہ بھی یقین بھی ہے کہ اپنے بڑوں کی چھتر چھایا کی وجہ سے وہ پھر سے چھوٹ بھی جائے گا۔
اب اس مولوی میں اور لال رنگ کی لائٹ جلاکر کچا اور سفید تربوز بیچنے والوں میں کیا فرق ہے، یا پھر ریلوے کے پلیٹ فارم پر آدھی نماز چھوڑ کو چلتی گاڑی میں سوار ہونے والے مذہبی راھنما میں کیا فرق، کوئی نہیں۔کیا اللہ کا ذکر و افکار اور قسمیں اس بات کی دلیل ہوسکتی ہیں کہ ہم سچے ہیں یا بھیس بدلنے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوسکتی،میرا نہیں خیال، ”اوتھے عملاں نے ہونے نیں نبیڑے کسے نئیں تیرے ذات پوچھنی“ اگر واقعی یہ سچ ہے تو عدالتوں میں جرم ختم ہو جانا چاہیے۔ شاید ہم وہ ڈیڑ ھ ہوشیار قوم جو خود کو بیچ کر سمجھ رہے ہیں کہ ہم منافع میں جار ہے۔ لیکن سچ کچھ اور ہے مطلب یہ نہ تو ہم زمینی منافع میں ہیں نہ آسمانی۔ اللہ ہم پر اپنا رحم فرمائے جس کے شاید ہم قابل تک بھی نہیں۔
آمین۔