اگر صفائی نصف ایمان ہے تو۔

تحریر: امجد پرویزساحل

یہ کوئی نئی بات نہیں جب پاکستان میں غیر مسلم کے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا گیا ہو بالخصوص غریب غیرمسلم کے ساتھ تو دوہراتعصب ہوتا ہے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس مذہبی تعصب کو ایک خاص طبقہ تسلیم کرنے کے لیے تیارہی نہیں۔ویسے تو اس کی ابتدا ء پاکستان بننے سے پہلے ہی ہو چکی تھی جب پاکستان کا مطالبہ مذہبی بنیادوں پر حاصل کرنے کی جہدو جہد سے شروع ہوا تھا اور برصغیر کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا مسلم اور غیرمسلم، بمطابق ہماری مطالعہ پاکستان۔ ہندو اور مسلمان،یعنی ہندو جو کہ بتوں کو پوجنے والی قوم ہے جو ذات پات میں تقسیم ہے اور مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھنے والے اور ہم سب خدا کی بار گاہ میں برابر ہیں،مطلب کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں،فرق ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر۔ یہاں تک تو بات درست ہے لیکن جیسے ہی زمینی حقائق پر نظر دوڑھائیں تو سب کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ نہ محبت، نہ بردباری،نہ اخلاقیات،نہ انصاف،نہ انسانی بنیادوں پر برابری۔ ویسے تو انسانوں میں برابری کا نہ ہونا ایک غیر فطری عمل ہے،زمین پر زندہ رہنے کے اپنے ہی اصول ہیں جیسے ہر طاقت ور کمزور کو کھاجاتا ہے اور کمزور طاقتور کی غذ ابنتا ہے۔ یعنی ہم سب ایک دوسرے کی خوراک ہیں اس کے باوجود بھی ہم اگر یہ بات کے دعوے دار ہیں کہ سب انسان برابر ہیں تو جس بنیاد ہم یہ دعویٰ کرتے کم از کم اس کی مان ہی لیں کیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے انصاف اور پھرمحبت اور امن ہونا چائیے کیونکہ بحرحال ہم ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں۔افسوس یہ تینوں ناپید ہے۔
حسب روایت پچھلے دنوں کے پی کے میں محکمہ صحت میں نئی بھرتیوں میں ایک اشتہار چھپا جس میں مختلف پوسٹوں کے ساتھ خاکروب کی سیٹوں کا بھی علان کیا گیا۔ اس میں حسب روایت ایک بار پھر خاکروب کی سیٹوں کے لیے غیرمسلم بالخصوص مسیحوں کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا۔ خدارا! یہ وہی مسیحی ہیں جن کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ کر پاکستان کی اشرافیہ اور افسر شاہی آج اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں آپ اسقدر احسان فراموش ثابت ہونگے اس بات کا ادراک تو شاید بابائے قوم کو بھی نہ ہو۔پاکستان کی خدمت ہر پاکستانی پر فرض ہے لیکن فرض میں بھی طبقاتی اور مذہبی منافرت، جو اخلاقی طور پر قطعاً قابل قبو ل نہیں اور آئینی طور پر کیونکہ پاکستان کا آئین پاکستان کے ہر شہری کو اس کے دین اور عقیدے کی بنیاد پر حراسان کرنے کے تاثر پھر چاہے وہ بول کر ہو یا لکھ کر آرٹیکل 298 کے مطابق سزا وار سمجھتا ہے اقلیتوں کی شرافت اور تربیت کا اندازہ کرلیں آج تک کسی نے ایسے افراد کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جب یہ اشتہار بن رہا ہوگا تویقینا اسے کسی فرد واحد نے تو ڈرافٹ نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی فرد واحد نے پاس کیا۔ یہ نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے جب آپ سرکاری سطح پر جس پر آپ نے یہ حلف لیا ہے کہ پاکستان میں خدمت بغیر کسی تعصب،رنگ،نسل اور مذہب کے کرونگا اور پاکستان کا شہری پاکستان کا مالک ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔


اب وہ دو قومی نظریہ جس میں واشغاف ہندوں کے ممکناً تعصب کے خوف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چودہ نقاط میں سے ایک نقطہ رکھا گیا جس کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک چلی اور پھر بعد میں وہ تحریک کامیاب بھی ہوئی اورملک پاکستان حاصل بھی کر لیا گیا۔ ویسے بابائے قوم کے خطبوں میں بھی اس بات کے خدشات کا اظہار ملتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود ناگزیر تھا۔ لیکن وہ بات واقعی سچ تھی یہ پاکستان ایک خاص طبقہ کے لیے ہی لیا گیا تھا۔یوں کہہ لیجئے طاقت ور مسلمانوں کے لیے نہ کہ کمزور لوگوں بالخصوص غیرمسلمانوں کے لیے۔
دوسری بات اگر صفائی نصف ایمان ہے تو یہ فرائض غیرمسلم بالخصوص مسیحوں کے لیے ہی کیوں؟ کیا صفائی نصف ایمان صرف مسیحوں کے لیے ہی کہا گیا ہے؟ کیا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں فیصلہ کن عہدوں پر صرف مسیحی لوگ مشمول ہیں۔ افسوس صد افسو س اس سوچ پر۔ آپ کی اس سوچ نے آپ کی اخلاقیات کا پردہ فاش کردیا ہے۔ آپ کے روحانی معیارات اور سماجی انصاف کے دعووں کو چوُر چُور کر دیا ہے۔ وہ لوگ جہنوں نے آپ کو انگلی پکڑ کر لکھنا سکھایا، آپ کی توتلی زبان کو پڑھنا سکھایا، جب آپ کو اقتدار ملا تو آپ نے وہ سلوک کیا جو مصریوں نے اسرائیلیوں پر کیا، جو برما کی سرکار نے مسلمانوں پر کیا، جو ہندستانیوں نے کشمیریوں پر کیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے پنجاب اور سندھ میں کے کچھ ادارے کے اشتہاروں میں بھی ہوا ہے۔ اس مذہبی و طبقاتی تعصب نے پہلے ہی پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہسائی کی ہوئی ہے۔ اب آپ کو یہ جھوٹا سچ اپنی مطالعہ پاکستان میں سے نکالنا دینا چاہیے جس میں آپ نے ہندوں کے مسلمانو ں پر ڈھائے جانے مظالم کا ذکر بار بار کیا ہے۔ اب آ پ کو کس بات کا ڈر ہے کہ آپ نے جو آئین میں یہ شرط رکھی کے ملک کا وزیرعظم اور صدر مسلمان ہی ہونا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس عہدے کے لیے غیرمسلم تو دور کی بات کوئی مڈل کلاس خاندان کا فرد بھی نہیں آسکتا ہے۔ کیونکہ میرے وطن میں صرف و صرف طاقتور، وڈیرہ،جاگیردار یا پھر سرمایہ دار ہی ہو سکتا۔ امن و انصاف کے فقدان اور اقتدار کے نچلی سطح تک منتقلی کے خوف نے آپ کو دنیا میں ذلیل کر کے رکھ دیا، یہ وہی خوف ہے جس کو سامنے رکھ کر آپ جب خاکروب کے پوسٹوں کا اشہتار کرتے ہیں تو اس میں غیرمسلم کو ترجیح بنیادوں پر رکھتے ہیں۔ حالانکہ صفائی تو نصف ایمان ہے اور اس پر پہلا حق بھی پھر ان ہی کا ہونا چاہیے جن کا یہ دعویٰ اور تعلیمات ہیں۔ پھر یہ کانی ونڈ کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے معاشرے میں ماتھے کا محراب متقی ہونے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔کون کتنا متقی ہے اس کا فیصلہ قیامت والے دن پر چھوڑ دیں۔ پاکستان پائندہ باد۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading