تحریر: امجد پرویزساحل
انڈیا نے ایک دفعہ پھر ثابت کردیا ہے کہ کھیل کوئی مذہبی فریضہ نہیں بلکہ قومی جذبے کا کمال ہوتا ہے جس پر برسوں کی محنت،لگن اور تعصب کے بغیر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر انڈین اور بالخصوص ان ملکوں کی ٹیمیں زیادہ پسند ہیں جہاں کھلاڑیوں کا چناؤ صرف پرفارمنس کی بنیاد پر ہی کیا جائے نہ کہ کسی خاص عقیدے کی بنیاد پر۔ مذہب کی بنیاد پرعبادات کا حساب قیامت کے دن ہوگا ٹورنامنٹ کے دن نہیں۔ ماضی بعید میں ہماری کھیلوں میں میرٹ اور پرفارمنس کے بنیاد پرہی سلیکشن ہوا کرتی تھی اب تو ایسا ممکن نہیں اور اب اگر کبھی انجانے میں کسی نے ایسا بھلا چنگا کام کر ہی دیا ہے تو باقی کھلاڑیوں کو انہیں راہ راست پر لانے کی کھجلی اکثر ستاتی رہتی ہے حالانکہ ہم نے صرف اپنے کرتوت سیدھے کرنے ہیں بندہ خود ہی مثاثر ہوجائے گا اور بشرط یہ کہ اُسے بھی تبدیلی مذہب کا اگر کوئی بخار ہو جائے تو پھر وہ تبدیل ہو ہی جائے گا ویسے تو ایسا قطعاً نہیں ہونا چاہے یہ کام مذہبی قیادت کو ہی اچھا لگتا ہے بہتر ہے وہ کم از کم کھلاڑیوں سے تو بہتر سرانجام دے سکتے ہیں لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے مولوی کرکٹر بن جاتا ہے اور کرکٹر مولوی۔اگر تو پاکستان پاکستانیوں کا ہے تو پھر کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کی ہونی چاہیے۔ اور اگر تو مسلمانوں کا ہی ملک ہے تو پھر کرکٹ ٹیم کے مکمل اسلامی ہونے میں کوئی ہرج نہیں پھرتو اسٹیڈیم میں سبز و سفید پرچم بالکل لانے کی ضرورت نہیں وہاں پر صرف سبز پرچم ہی لے آئیں۔
ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ چند دن پہلے میری نظر سے فیس بک کی ایک پوسٹ گزری جس میں انڈیا کی جیت کی خوشی میں ٹیم کے تین کھلاڑی ناچ کر جیت کا جشن منا رہے تھے میرے لیے زیادہ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ یہ تینوں کھلاڑی مختلف مذہب اور عقیدوں سے تعلق رکھنے والے تھے،ان میں ایک مسلمان،دوسرا ہندو اور تیسر ا سکھ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ ایک پوسٹ اپنے ملک کی پوری کی پوری ریاستی پالیسی کی نمائندگی کر رہی تھی وہاں بغیر کسی رنگ،نسل اورمذہب کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے بلکہ بہت دفع تو مسلمان ٹیم کا کیپٹن ہوتا ہے سب حب الوطنی سے اپنے ملک کو جتانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اب کچھ لوگ انڈیا میں چند انتہاپسند ہندو جماعتوں کا ذکر کریں گے جی اس سے تو میں بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا وہ پھر بابری مسجد ہو یا پھر منی پور کے سانحات۔مسلمان، سکھ اور مسیحی وہاں انتہاپسندہندو جماعتوں کے تشدد کا آئے دن شکار ہوتے ہیں لیکن بھارت کی سرکار دوسری طرف وہاں کے شہریوں کو انڈیا کے سب شعبوں میں برابر کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے آج دنیا میں انڈیا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی جمہوریت ہے جہاں جی ٹونٹی جیسے اجلاس ہوتے ہیں دنیا کا بڑے سے بڑا انویسٹر آنا پسند کرتا ہے۔ اگر کسی انڈین مسلمان سے ہمدری جتاتے ہوئے پوچھا جائے کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں تو وہ پاکستان کو تضحیک آمیر لہجے میں کہتا ہے کہ آپ اپنی سنبھالیں ہم اپنے حقوق لینا جانتے ہیں بلکہ آج سے پچھہتر سال پہلے ہم نے پنا فیصلہ دے دیا ہے۔ بات کھیل سے نکلی تو سیاست میں گھس گئی۔
دل تو یہی کرتا ہے کے پاکستان میں ہر شعبہ میں بلا رنگ،نسل و مذہب کی تفریق کے سب کو اپنا حصہ ڈالنے کا موقع دیا جائے لیکن کیا کریں پاکستان کے چند مذہبی حلقوں کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی پھر چاہے وہ کرکٹ ہو یاکچھ اور۔ یہاں تک کے کاروبار میں، تعلیم میں غیرمسلم پاکستانیوں سے نفرت ایک معمول بن گیاہے اب تو اس انتہاپسندی کا شکار مسلم اکثریت بھی ہورہی ہے اور یہ سلسلہ اب شاید نہ رکنے والا دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا کبھی دعوت کے بہانے تو کبھی ذات پات کے بہانے تعصب ہی کیا ہے۔
بھارت میں یہ صرف کرکٹ ٹیم ہی نہیں بلکہ اس کی لوک سبھا،فلم انڈسٹری، کھیلوں کے میدان، آرٹ اور ادب سب میں سرکار بلکل غیر جانبدار نظر آتی ہے۔ بڑی خواش ہے ایسا سب کچھ پاکستان میں بھی ہو، ایسا نہیں کہ کبھی یہاں ہوا نہیں۔ ماضی بعید میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ جب ہماری کھیلیں مذہبی تعصب سے پاک قومی سطح پر دنیامیں پاکستان کی نمائندگی کیا کرتی تھیں پھر ایک وقت ایسا آیا کے ملک میں ضیاالحق آگیا اور پاکستان کے بہت سے ادارے کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے ہتھے چڑھ گئے مطلب ایسی سوچ کو اپنے وطن میں رہنے والے غیرمسلم سے خطرہ محسوس ہونے لگا، ان کے ایمان کو ٹھیس پہنچنی شروع گئی اور آہستہ آہستہ کھیل تبلیغی رنگ میں رنگنا شروع گئے جو کھیل کبھی ایک صحت مند مقابلہ کی فزا میں کھیلے جاتے تھے وہ مسلمان اور کافر کی جنگ میں تبدیل بھی ہوگئے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔