تحریر: امجد پرویزساحل
حسب معمول14 اگست پاکستان کی حصول کا دن ہے جس کو ہم پاکستانی آزادی کا دن بھی کہتے ہیں اس دن پورا پاکستان دو خوشیاں مناتا ہے اک آزادی کا اور دوسرا چھٹی کا۔ بچے گلیوں بازاروں میں مختلف قسم کے کھلونوں اور باجوں سے اپنی معصومیت اور تربیت کا مظاہر ہ کرتے ہیں اور من چلے موٹرسائیکلز کے سائیلنسرز کی بانسریا ں نکال کر آزادی کی بھڑاس نکالتے ہیں اور چند جوشیلے نوجوان تو ون یلنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ المختصر چھوٹے سے لیکر بڑے تک اپنے اپنے طریقے سے 14 اگست کوسب دکھ دردبھلا کر آزادی کا جشن مناتے ہے۔
ایک لحاظ سے یہ دن مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ عیدیں شبراتیں تو پھر بھی ہم نے عقیدوں اور مذہبوں میں بانٹ رکھی ہیں لیکن جشن آزادی بلا رنگ و مذہب سب ہی مناتے ہیں۔ حالانکہ ہم کتنے آزاد ہیں یہ بات کافی قابل بحث ہے۔جیسے آزادی کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں ویسے غلامی کی بھی اقسام ہیں۔کیونکہ کچھ غلامیاں آزادی کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور کبھی کبھی تو ہم اس غلط فہمی میں ہی ساری زندگی زدہ رہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔پرانے زمانوں میں غلامی کا مطلب انسانوں کو رسیوں سے یا سنگلوں سے باندھنے کو کہا جاتا تھا اور آج اس کو بے جاٹیکسوں،معاشی جکڑن اور ذہنی پریشانوں میں غرق کرنے کو کہا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں بھی کچھ ایسے حالات پیدا ہو چکے۔ہمیں روٹی کپڑے اور مکان کے چکروں میں ڈال دیا گیا ہے۔ جب کبھی ہم ان مسائل سے کچھ دیر کے لیے عارضی حل نکل جائے تو ہم خود کو آزاد سمجھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہ تو بنیادی حقوق ہے جس کو مہیا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔آزادی تو بہت آگے کی چیز ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق ملک کا اسی فیصد طبقہ تو کبھی ملک سے باہر گیا ہی نہیں۔ انہیں کیسے اندازہ ہو کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ وہ صرف سال بعد ایک ترانہ اورچند بچوں کے کھلونوں اور ون ویلنگ کو آزادی سمجھ بیٹھے ہیں۔
ملک کو وجود میں آئے سات دہائیاں گزر گئی لیکن ہماری حالت پہلے سے بھی بد تر ہے اور مستقبل میں بہتر ہو جائے اس کی امید بھی نہیں کی جا سکتی۔ سیانے کہتے ہیں ایک نوجوان اگر تیس سال کی عمرمیں خود انحصار نہ ہو جاے اس کے لیے زندگی بھر خوش حال ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور اگر چالیس سال میں سمجھدار نہ ہو تو سمجھیں اب اس کی باقی زندگی بیوقوفیوں میں گزرے گی۔ پچاس سے ساٹھ سال کی عمر ہے بزرگی نہ آئے تو اُس نے پھوکٹ میں بال سفید کروا لیے ہیں اور کمر کبڑھی کروالی ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہے ہوا ہے ملک کو وجود میں آنے کے ستھترسال بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پایا تو کبھی نہیں ہو سکتا ہے۔ اب مزید ظلم کی بات یہ ہے کہ وطن پر جان قربان کرنے والے جان بچانے کے چکر میں ملک سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔کبھی ہمارے بزرگوں نے ملک کی خاطر ہجرت کرکے وطن عزیز میں آئے تھے آج ہم اپنے پلاٹ،گھر،مال اسباب بیچ کر اُسی ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ حکومت بجائے حالات کو بہتر کرنے کے تاکہ ہمارا نوجوان یعنی ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ملک چھوڑ کر نا نہ جائے۔اس بوڑھے باپ (پاکستان) کو چھوڑ کر نہ جائے کیونکہ اگر اس ملک کو جوان ہی نہیں رہے گا تو باپ کی میت کو کندھا کون دے گا۔
اس لیے کس آزادی کا جشن منائیں اور کس بنیاد پر منائیں ہم نے کِیا ہی کیا ہے سوائے دنیا میں ذلیل ہونے کے۔ پیسے تو پیسے ہم نے عزت بھی نہیں کمائی۔ دنیا اب ہمیں اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے اپنے گھر کو دوزخ بنا دیا ہے۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہم نہ ملک کی حفاظت کرپائے نہ دین کی۔ کیونکہ ہم نے دونوں کا غلط استعمال کیا ہے۔ ہم نے دونوں کا مذاق اڑیا ہے۔کبھی منافقت کے راستے تو کبھی کھوکھلے نعروں کے راستے ہیں۔ دراصل ہم عملی طور ایک شکست خوردہ قوم بن کر رہ گئے ہے۔ ہم نے اپنے ملک کی اقلیتوں کے خلاف وعدہ خلافیاں کی ہیں۔ہم نے ان کی بستیاں جلائی ہیں اور اس ابدی معاہدے کے خلاف تحریک چلائی ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مسلموں بالخصوص مسیحوں کے گرجوں کی حفاظت کے ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ ہم نے قائداعظم کی11 اگست کی تقریر جو ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہے خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا میں منافق کبھی عزت نہیں پاسکتا ہے۔ ہم نے روحوں کی بجائے جسموں کو وضو دیا ہے ہمارے اندر آج بھی غلیظ ہیں۔ نہ ہم سے خدا خوش ہے نہ خلقت خدا۔ پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم آزاد ہیں تو کہاجاسکتا ہے اس جشن آزادی پر میرا کالم ایک نوحہ ہے جشن آزادی کا نوحہ۔۔۔پاکستان پایندہ باد۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔