تحریر: عطاالرحمن سمن
77سال پر مبنی ہماری تاریخ بلا مبالغہ سیاسی، معاشی، سماجی، مذہبی اور عدالتی بحرانوں پر مبنی ایک طویل بحران کی کہانی ہے۔ برطانوی ہندو ستا ن کو جب انگریزوں نے مذہب کی بنیاد پر دو ریاستوں میں تقسیم کیا تو ہمارے ہاں ہر شعبہ شکستہ حا ل تھا۔ مالی بے سرو سامانی کی حالت میں نئی ریاست کو مہاجرین کی آمد اور آباد کاری کے مسائل، پر تشدد واقعات، معاشی اور سیاسی عدم استحکام جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ سرحد کے دونوں طرف تقریباً14ملین افرد کی نقل مکانی ہوئی جس میں پُر تشدد واقعات میں مبینہ طور پر 2ملین افراد لقمہ اجل بنے۔ پا کستانی تاریخ دان ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق ”بٹوارے کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نہ تو یہ شروعات تھی اور نہ ہی اختتام۔ چنانچہ دونوں ممالک کے لوگوں کی زندگیوں کے ماضی، حال اور مستقبل پر تقسیم ہند کے گہرے اور ان مٹ نقوش ہیں۔
مسلم لیگ کی قیادت میں قائد اعظم کے قد کا کوئی سیاسی رہنما موجود نہیں تھا چنانچہ پاکستان کے قیام کے ایک سال کے قلیل عرصہ میں قائد اعظم کی وفا ت ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بنی۔ ابتدائی سا لوں میں کمزور سیاسی اداروں نے سیاسی انتشار اور عدم ستحکام کی راہ ہموار کی۔ صورت حال ایسی تھی کہ تین سال کے اندر اِس نئی ریاست کو ناکام ریاست کہا جانے لگا اور اِس کے وجود کے برقرار رہنے پر شکوک کے سائے منڈلانے لگے۔ پاکستانی عوام نے اپنی محنت و جذبے کے ساتھ ایسے تمام شکوک کو باطل کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔
پاکستا نی عوام نے ایک سیاسی تحریک کے ذریعہ پاکستان کا حصول ممکن کیا تھا۔ تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ طاقت کے محوروں پر غیر جمہوری طاقتوں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ سیاسی عمل میں مسلسل مداخلت اور اندرونی و بیرونی حالات کے زیر اثر پاکستان میں جمہوری ادارے مضبوط نہ ہونے پائے۔ ملک میں بار بار فوجی حکومتوں کے آمرانہ ادوار کے باوجود پاکستانی عوام نے اپنی آنکھوں میں عوامی حکمرانی کا خواب کبھی مرنے نہیں دیا۔ سیاسی کارکنوں اور قیادت نے کوڑے کھائے، پابند سلاسل ہوئے، صعوبتیں سہیں، پھانسی گھاٹ پر چڑھ گئے، دہشت گردی کا شکار ہوئے تا ہم اپنے ملک کی ترقی کے سفر کو جاری رکھا ہے۔ غیر معمولی حالات کے باوجود 1947ء میں خواندگی کی جو شرح 12فیصد تھی آج 77فیصد سے زیادہ ہے۔ 1949ء میں نیشنل بینک آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ 1955ء میں ہم نے پہلے معاشی ترقی کے پانچ سالہ منصوبہ کا آغاز کر دیا تھا۔ 10جنوری1955ء کو پاکستان ا یئر لائن (PIA) نے اپنے سفر کاآغاز کیا۔ 19ستمبر1960ء میں ورلڈ بینک کے تعاون سے پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کئے۔ 1960ء میں وارسک ڈیم کی بنیاد ڈالی۔ 24اگست1967ء میں چٹاگانگ (مشرقی پاکستان) میں پہلی سٹیل مل پر کام کا آغاز ہوا ۔ جنوری 1972ء میں پاکستان نے ا یٹم بم بنانے کا پروگرام شروع کیا گیا۔۔1973 میں ذولفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستانی عوام نے ملک کا پہلا متفقہ آئین منظور کیا جو آج تک نافذ العمل اور قوم کی اکائیوں کو باندھے ہوئے ہے۔ 30دسمبر1973ء میں پاکستان سٹیل ملز کی داغ بیل ڈالی گئی جو 1985ء میں مکمل ہوئی۔1976ء میں تر بیلا ڈیم مکمل ہوا۔ پاکستانی سیاسی قیادت (ذولفقار علی بھٹو)نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کر کے 1971ء کی جنگ میں بھارت کے قبضہ میں جانے والا رقبہ اور 93000جنگی قیدی چھڑوا ئے تھے جس کو دنیا بھر میں بڑی فتح قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ میدان جنگ میں ہاری ہوئی جنگ پاکستان نے مذاکرات کے میز پر جیت لی ہے۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کا توازن درست کر دیا۔ 2010ء میں دستور میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے حقوق کو زیادہ محفوظ بنا دیا گیا۔ غرض کہ تمام بحرانوں اور چیلنجز کے باوجود پاکستان کے عوام نے ہر شعبہ میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔
آج وقت نے ہمیں ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے جس پر ہمیں اپنی سُست رفتار ترقی کے عوامل کا منطقی اور تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں موجود مذہبی و ثقافتی تنوع کو قبول کرتے ہوئے ایک مشمولاتی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنی ہوگی۔ یاد رہے جرمنی اور فرانس نے ا پنی آنے والی نسلوں کو نفرت کی آگ میں جھُسلنے سے بچانے کے لئے اپنی خون ریز تاریخ (جو پاکستان اور بھارت سے کئی گناہ بھیانک ہے) کو بھلا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جو دونوں ممالک کے عوام میں خوشحالی اور امن کے فروغ کا باعث بنا۔ ہمیں بھی نفرت کے بیانیہ سے آگے بڑھنا ہوگا۔ پائیدار ترقی کی راہ کے لئے یہ پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔