اعظم معراج: پاکستانی مسیحیوں کا عظیم سفیر

 

 ایازمورس

ایک سماجی رضاکار کی کہانی جس نے مذہبی اقلیتوں کی سیاسی اور سماجی شناخت کو قابل فخر انداز میں اجاگر کیا۔

۔29 جنوری 2020 کی شام، کراچی بوٹ کلب میں عالمی شہرت یافتہ مصنف جناب عارف انیس کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی، اس تقریب کے معیار کا انداز ہ کلب کے مقام سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس تقریب میں جہاں کراچی کی اشرافیہ کی شرکت نے چار چاند لگادے تھے وہاں میں بھی مدعو تھا اور جناب اعظم معراج مہمان خصوصی اور بطور مقرر مدعو تھے۔

شرکاء کے تعارف اور نام کی محدود فہرست سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ہم دونوں کے علاوہ وہاں کوئی اور مسیحی موجود نہیں تھا۔ اس تقریب میں اعظم معراج کو عارف انیس کی کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا لیکن جس مہارت اور وقار کے ساتھ انہوں نے کراچی کی اشرافیہ کے سامنے پاکستانی مسیحیوں کا مقدمہ پیش کیا وہ میرے لیے ایک شان دار، قابل فخر اور حیران کن تجربہ تھا۔

میں نے شاید اس طرح کی تقریب میں کسی پاکستانی مسیحی کو پاکستانیوں کا مقدمہ اتنے مدلل اور باوقار انداز میں پیش کرتے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ بھی ایک غیر سیاسی اور غیرمذہبی شخصیت کو، وہ اس خوب صورتی سے عارف انیس کی شخصیت کا احاطہ کر رہے تھے کہ اس میں سے پاکستانی مسیحیوں کی قابل فخر اجتماعی شناخت اجاگر ہورہی تھی۔

اعظم معراج سے میرے تعلق کی ابتدا

اعظم معراج سے میرا تعارف ایکسپریس اخبار کے ذریعے ہی ہوا، جس میں معروف کالم نگار زاہدہ حنا نے ان کی کتاب پر مضمون لکھا تھا۔ اس کتاب کی تلاش میں، میں اردو بازار پہنچا اور وہاں سے یہ کتاب حاصل کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے اعظم معراج سے پہلی بار رابطہ ہوا، اور یوں میں تحریک شناخت میں بطور رضا کار اپنی خدمات سر انجام دینے لگا۔

مجھے خوشی اور فخر ہے کہ اپنی نوعیت کی اس منفرد رضا کارانہ تحریک میں، میں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اعظم معراج کے کئی ویڈیو انٹرویوز کیے، مضامین لکھے، کئی تقریبات کا انعقاد کیا اور کئی تقریبات میں ان کے ساتھ شامل ہوا اور چند ایک تقریبات میں بطور اسپیکر بھی ان کی غیر موجودگی میں شرکت کی اور اُن کا پیغام اور کام بالخصوص کتابوں کو لوگوں تک پہنچایا۔

اعظم معراج نے تحقیق اور تخلیق کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اُن کی کتابیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ رضا کارانہ تحریک کی کام یابی کی عملی مثال اور کیس اسٹڈی ہیں اور عوامی مفاد کے لیے فرد واحد کے عزم و کردار کی زندہ تصویر ہیں، جس کے بارے میں ای ایم فورسٹر نے کیا خوب کہا تھا،’’جذبے کے ساتھ ایک شخص، اُن چالیس لوگوں سے بہتر ہے جو محض کسی کام میں صرف دل چسپی رکھتے ہیں۔‘‘

اعظم معراج کی زندگی کے تجربے، مشاہدے اور تحقیق نے مذہبی اقلیتوں کے اجتماعی رویے، سماجی برتاؤ، کلیسائی اور حکومتی اداروں کے مزاج کی بہترین تصویر کشی ہے۔ وہ سماج اور رواج سے مختلف انسان ہیں، جو میری نظر میں پاکستان کی تاریخ میں قومی سطح پر، کسی بھی فردواحد کی جانب سے اتنا منظم، جامع اور قابل ذکر کام سرانجام دینے والی شخصیت ہیں، جن کا کام کئی اداروں سے بڑھ کر ہے اور یہی ان کی منفرد پہچان ہے۔

اعظم معراج 29 جنوری 1963ء کو محترم معراج اور نذیراں معراج کے گھر، شیخوپورہ کے گاؤں چھاؤنی میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ تیسری جماعت تک تعلیم آبائی گاؤں قلعہ دیدار سنگھ گوجرانوالہ سے حاصل کی۔

1972ء میں ان کا خاندان کراچی آگیا۔ میٹرک نارویجین گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، انٹر سینٹ پیٹرک کالج اور بیچلرز کراچی یونیورسٹی سے کیا۔ 1987ء سے ریئل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ 1992ء میں مقابلے کے امتحان میں شرکت کی۔ وہ 1997ء میں ڈیفکلیریا (ڈیفنس اینڈ کلفٹن اسٹیٹ ایجنٹ ایسوسی ایشن) کے پہلے سیکریٹری ایجوکیشن منتخب ہوئے۔ پاکستان میں پہلی بار ریئل اسٹیٹ کی رسمی تعلیم پر کام کیا۔ متعدد سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا۔

اس موضوع پر چار کتب ’’میں تو اسٹیٹ ایجنٹ ہوگیا‘‘، ’’پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار‘‘، ’’اسٹیٹ ایجنٹ کا کتھارسس ’’ریئل اسٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی‘‘ لکھ چکے ہیں۔ ان کتب کے مجموعے کو ’’پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار۔ مجموعہ کتب‘‘ کے نام سے یکجا کیا گیا ہے۔ یہ معیشت کے اس اہم شعبے پر پاکستان میں پہلی کتب ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں پہلی دفعہ MBA پروگرام شروع کیا۔ ریئل اسٹیٹ پر متعدد کورسز کروائے۔ ڈیفکلیریا الیکشن 2010 ء میں وہ پہلے چیئرمین اسکورٹنی کمیٹی رہے۔

ریئل اسٹیٹ میں اپنے 30 سالہ تجربے، مشاہدے اور تجزبے کی بنیاد پر ایک کورس بنام ’’بیسک آف ریئل اسٹیٹ مارکیٹنگ اینڈ مینجمنٹ‘‘ ڈیزائن کیا یہ کورس تجربے، تحقیق اور تعلیم کی بنیاد پر منظم انداز میں پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق ریئل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ افراد کی تربیت کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔

اس کورس کے بارے میں وہ کہتے ہیں،’’یہ کورس میرے اس مفروضے (hypothesis ) کا دفاع ہے کہ پاکستان میں اسٹیٹ ایجنٹ کے بارے میں معاشرے کا خراب تاثر اس وقت تک دور نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کام میں ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کی مدد سے پاکستان ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کے معروضی حالات کے مطابق تحقیق، تعلیم اور تربیت کی بنیاد پر منظم انداز میں تیار کردہ نصاب کی بنیاد پر نظری وعملی تعلیم و تربیت کا نظام ترتیب دے کر اس کی بنیاد پر وفاقی، صوبائی و ضلعی حکومتیں اسٹیٹ ایجنسی کھولنے کے لیے کسی رجسٹریشن/لائسنس کا بندوبست نہیں کرتی۔ اس کے لیے پہل اسٹیٹ ایجنٹ کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کرنی پڑے گی، کیوںکہ اس سے پہلے اس پیشے پر برصغیر اور خصوصاً پاکستان کے معروضی حالات اور منڈی کے مطابق کوئی تعلیمی مواد دستیاب نہیں۔‘‘

2015ء میں انہوں نے مریری (’’معراج ریئل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘) کی بنیاد رکھی یہ ورچول انسٹیٹیوٹ ہے جس کے الحاق سے ڈیفکلیریا میں پانچ کورس مکمل کروائے گئے۔ ان کا یہ مفروضہ فروری 2021ء میں سچ ثابت ہوا جب ’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ‘‘ اور ’’مریری‘‘ نے ایک معاہدے پر دست خط کیے اور ان دونوں اداروں کے الحاق سے ان کے تیارکردہ کورس کی بنیاد پر ’’ڈپلوما ان ریئل اسٹیٹ مینجمنٹ‘‘ کا اجراء ہوا۔

وہ پچھلے پچیس سال سے اپنے ان دونوں مفروضوں کے دفاع میں سرگرم ہیں۔ وہ ان دونوں مفروضوں کے مسائل اور حل کو تقریباً ایک جیسا ہی قرار دیتے ہیں، جس کا مقابلہ و سدباب اجتماعی، خود آگاہی اور اعدادوشمار کی بنیاد پر صحیح تجزیے کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے ان مفروضوں کے کام یاب دفاع کی دلیل یہ ہے کہ کے کئی ماہرین معاشی امور ان کی پہلی کوشش کو برصغیر کے معاشرے میں ریئل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ افراد کے لیے اور دوسری کوشش کو ماہرین سماجیات دُنیا میں کہیں بھی کسی بھی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے ایک کام یاب ماڈل قرار دیتے ہیں۔ اعظم معراج اپنے شعبے کے گرو مانے جاتے ہیں۔

وہ 8 مئی 1995 کو سیمی معراج سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ خُدا نے ان کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا ہے۔ ان کے دو بچے آئی بی اے، کراچی سے اور ایک این ای ڈی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کی جستجو میں ہیں۔

اعظم معراج ایک حب وطن پاکستانی مسیحی ہیں۔ ان کو حاصل ہونے والی ذاتی کام یابیاں بہت چند پاکستانی مسیحیوں کے حصے میں آتی ہیں۔ وہ اپنی کام یابی کو اپنے والدین کی دُعاؤں، سوچ، تربیت اور پروفیشنلزم کے ساتھ مستقل مزاجی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

تحریک شناخت کیا ہے؟

اعظم معراج کہتے ہیں کہ تحریک شناخت معاشرتی، آگاہی اور اجتماعی خودشناسی کی ایک فکری تحریک ہے، جس کا نہ کوئی انتخابی، سیاسی، یا مذہبی ایجنڈا ہے، اور نہ ہی یہ کوئی این جی او ہے۔ اس فکری تحریک کا کوئی انتظامی ڈھانچا بھی نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں پھیلے اس کے رضاکار اس فکر کو اپنی سماجی، معاشرتی و معاشی حیثیت کے مطابق پھیلانے میں اس یقین سے حصہ لیتے ہیں کہ یہ فکری تحریک پاکستان کے بالعموم پسے ہوئے طبقات اور بالخصوص پاکستانی مسیحیوں کے لیے پاکستانی معاشرے میں ’’بالترتیب فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، علمی، تہذیبی، مذہبی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہم وار کرے گی۔‘‘

اعظم معراج نے بتایا کہ اس تحریک کی بنیاد اس خیال پر قائم کی گئی ہے کہ ’’کسی بھی ملک قوم ومعاشرے میں کوئی ایسی کمیونٹی جو کسی بھی اعتبار سے مثلاً مذہب، رنگ، نسل، مسلک، پیشے، جنس اور زبان کے لحاظ سے اقلیت میں ہو اور اس وجہ سے اس گروہ کو امتیازی سماجی رویوں یا دیگر ایسے تعصبات کا سامنا ہو۔

ایسا گروہ اگر ردعمل میں معاشرے سے بے گانہ ہوکر معاشرے سے کٹ جائیں تو ایسے انسانی گروہ اپنے آپ پر ایسے معاشروں میں انفرادی واجتماعی ہر طرح کی ترقی کے ہزاروں راستے خود ہی بند کرلیتے ہیں، جس کا نتیجہ صدمے سے دائمی فرار کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہونے کا نکلتا ہے اور اگر فرار کی راہیں بھی دست یاب نہ ہوں، تو معاشرتی بے گانگی کا یہ مرض انہیں گہری پستیوں میں لے جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی معاشرے میں اپنی ایسی شناخت جس کی بنیاد پر ان سے تعصب برتا جارہا ہو اسے فخر سے قائم ودائم رکھتے ہوئے معاشرے میں انضمام integration سے اپنی عزت دارانہ بقاء کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔‘‘

اس مفروضے (hypothesis) کے دفاع کے لیے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔

اعظم معراج اس تحریک کے بانی رضاکار ہیں اور ان کے ساتھی اس فکری تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے درس خودشناسی و خودانحصاری کے ساتھ پاکستانی مسیحیوں کو یہ منترا بھی رٹا رہے ہیں۔ تم اس دھرتی کے بچے ہو، آزادی ہند، قیام وتعمیرو دفاع پاکستان میں تمھارے آباؤاجداد اور موجودہ نسلوں کا شان دار کردار ہے۔

اپنی اس شان دار شناخت کو مدِنظر رکھتے ہوئے معروضی حالات میں پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دست یاب موقعوں، اپنی کم زوریوں اور توانائیوں کا اعدادوشمار سے تجزیہ (swot analysis) کرو اور اپنے اجداد کی اس سر زمین پر فخر سے جیو۔ گو کہ حالاتِ اور واقعات امتحان لیتے ہیں، لیکن ان سے مایوس ہوکر اپنی اس وراثت کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔

اس فکری تحریک سے پاکستانی معاشرے میں معاشرتی ومذہبی ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی بڑی مدد مل رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دیگر اقدامات مثلاً طالب علموں، اساتذہ اور سیاسی سماجی ومذہبی کارکنوں سے فکری نشستیں منعقد کرنے کے علاوہ تحریک کے بانی رضاکار اعظم معراج نے پندرہ کتب بھی لکھی ہیں۔

اعظم معراج کی کتابیں

اعظم معراج کی پہلی کتاب ’’دھرتی جائے کیوں پرائے‘‘ معاشرتی بے گانگی کے مرض کی تشخیص کرتی ہے۔ اسے Neglected Christian Children of Indusکے نام سے انگریزی روپ دیا گیا۔ یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دست یاب مواقع اور کم زوریوں و توانائیوں کا تخمینہ لگاتی اور مکمل تجزیہ (swot analysis)کرتی ہے۔ معاشرتی بے گانگی کے ان رویوں میں مثبت تبدیلی کی کوشش کے طور پر دیگر 14کُتب تحریر کیں جن کی تفصیل یہ ہے۔

سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدائ، شہدائے وطن، شان سبزو سفید، چوبیس چراغ، پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل، ساتھی حیدران کے، کئی خط اِک متن، اسٹوری آف ٹو لیٹرز، پاکستان کے مسیحی معمار، بل دا لیجنڈ، ایس۔ ایم۔ برق ایک عظیم سفارت کار، دھرتی کو پاک کرتے ناپاک دھرتی واسیوں کے نوحے، پھر ان کُتب کے مجموعے کو ’’شناخت نامہ‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی گئی۔ ان کا ایک مقالہ غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے؟ بھی کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اس مقالے کے انگریزی اور سندھی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس تحریک کے بانی اعظم معراج بھی خود کو اس تحریک کا ایک ادنیٰ رضا کار اور ان کے ساتھی انہیں بانی رضا کار کہتے ہیں۔

صورت حال سے نبردآزما پاکستانی مسیحیوں کی معاشرتی بے گانگی کو کھوجنے اور اس کے سدباب کے لیے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

’’تاریکی تاریکی کو نہیں نگل سکتی، فقط روشنی ایسا کرسکتی ہے۔ نفرت نفرت کو نہیں نگل سکتی، فقط محبت ایسا کرسکتی ہے‘‘ (مارٹن لوتھر کنگ)

 معروف امریکی مصنفہ ایڈیتھ ویرٹن Edith Wharton کا کہنا ہے کہ ’’دُنیا میں روشنی پھیلانے کے دو طریقے ہیں، پہلا طریقہ کہ چراغ یا شمع بن جائیں اور دوسرا طریقہ کہ وہ آئینہ بن جائیں جو روشنی کی عکاسی کرے۔‘‘ جناب اعظم معراج اپنی تحریروں، تقریروں، تصویروں اور تحریک کے ذریعے چراغ بن کر مسیحی قوم کو اپنے روشن چراغوں کی روشنی سے منور کر رہے ہیں اور اپنے بلند عزم، مضبوط ہمت اور استقلال سے آئینہ بن کر روشنی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اعظم معراج مسیحی قوم کے وہ روشن چراغ ہیں جو مایوسی، نااُمیدی اور لاتعلقی کی تاریکی میں روشنی پھیلا رہے ہیں۔ آئیں! اس سفر میں ان کا ساتھ دیتے ہوئے اس روشن چراغ کی روشنی کو دوبالا کریں تاکہ کئی اور نئے چراغ روشن ہوسکیں اور معاشرے میں روشنی پھیل سکے

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading