تحریر: اعظم معراج
پس منظر
قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کی مذہبی اقلیتوں پر 16انتحابات میں 5 بار 3 اقلیتی انتحاہی نظام آزمائے گئے ہیں۔
نمبر 1.
2 بار جداگانہ انتحاہی
نمبر 2۔
3بار مخلوط طریقہ انتخاب
نمبر 3
ایک بار موجودہ مخلوط کے ساتھ نسبت تناسب سے سلیکشن والا انتحاہی نظام
نمبر 4.
5بار جداگانہ طریقہ انتحاب
نمبر 5.پانچ بار موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام
جداگانہ طریقہ انتحاب میں ان دھرتی واسیوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دینے کے نام پر سیاسی اچھوت اور معاشرتی اچھوت بنا دیا گیا تھا ۔
مخلوط طریقہ انتخاب میں مذہبی اقلیتوں کی معاشی ،معاشرتی سیاسی و آبادی کے متحرکات، اور پاکسان کے تاریخی ؤ مذہبی پس منظر کی بدولت ایسے ہیں ،کہ مذہبی اقلیتی شہریوں کا انتحابات کامیاب ہونا ہی بہت مشکل ہے ۔ ان تینوں نظاموں پر تفصیلی بحث
” تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کا جائزہ ۔یہ کیوں ضروری ہے ۔؟اور کیسے ممکن ہے ۔؟
اس مضمون میں ہمارا موضوع موجودہ انتحاہی نظام کی خوبیوں اور خامیاں ہیں ۔۔
ماضی میں 1970کے مخلوط طرز انتحاب میں اقلیتوں کو نمائندگی نہ ملنے کے ردعمل میں مسیحو نے یہ نظام دو جانیں اور بہت ساری جدو جہد کے بدلے۔۔ مخصوص نشستوں والے اقلیتی نمائندے 72سے چلنے والی اسمبلی میں اکیس نومبر 1975 میں چوتھی آئینی ترمیم کے زریعے شامل کئے گئے ۔۔ یوں اس نظام کو نافذ کیا گیا ۔اسی نظام کے تحت 77 کے انتحابات ہوئے جس کے نتائج مانے نہیں گئے ۔ اسکے بعد ضیاء الحق نے یہ نظام ختم کر دیا اور اقلیتوں کے لئے جداگانہ طریقہ انتحاب نافذ کیا جسکے کے تحت 1985سے 1997 پانچ بار انتحابات ہوئے ۔ پرویز مشرف نے 2001 میں مسیحو کے کہنے پر دوبارا اس نظام کو بحال کیا ایک دففہ 1977اور پانچ دففہ اب اس نظام کے تحت الیکشن ہوچکے ہیں ۔۔ آئیں اس انتحاہی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
خوبیاں
1.
اس نظام میں اقلیتوں کو جو یو سی سے لیکر نیشنل اسمبلی تک حلقے میں ووٹ ڈالنے اور انتحابات لڑنے کا حق حاصل ہوا ہے یہ اس انتحاہی نظام کی بہت بڑی خوبی ہے ۔ یاد رہے یہ حق ان سے ماضی میں جداگانہ طریقہ انتحاب میں چھین لیا گیا تھا ۔
مخصوص نشستوں پر انتحاب کا طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ خوبی بھی دب کر رہ گئی ہے ۔ اور اقلیتی شہری اس نظام سے جڑی مندرجہ ذیل خامیوں میں ہی الجھے رہتے ہیں ۔
خامیاں
1.
سات آٹھ مختلف عقیدوں کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر تقریبا ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت والی نمائندگی پر چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 24اور قومی اسمبلی کے 10نمائندوں کو صرفِ چار یا پانچ شخصیات چن لیں یہ انتہائی غیر انسانی، غیر جمہوری اور نا انصافی پر مبنی ، جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے ۔
2.
اگر چار پانچ شخصیات چاہے تو؟ وہ یہ 34کے 34ممبران اسمبلی ایک ہی مذہبی شناخت والے خواتین وحضرات کو اقلیتوں کے نمائندے نامزد کر سکتے ہیں ۔
3.
۔قومی سیاسی پارٹیوں کی مرضی و منشاء کے بغیر یہ نمائندگی حاصل کرنےکے کا کوئی راستہ ہی نہیں
۔
4.
۔ میرٹ کا کوئی معیار نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ورکر جو یہ منصب حاصل کرنا چاہئتے ہیں۔۔ وہ اپنے سیاسی لیڈروں کی خوشامد میں جٹے رہتے ہیں
5.
سیاسی جماعتوں میں میرٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایک جماعت کے ورکر کو یہ منصب ملنے سے دیگر میں بعض ،حسد پیدا ہوتا ہے ۔جو آخر کار صحت مند معاشرے کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے ۔
5
۔ پاکستان کی اقلیتیں مجعوعی طور پر تعلیمی ،مالی،فکری طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے سیاسی ورکر قومی سیاسی دھارے میں دلچسپی نہیں لیتے۔اور انھیں 34 اور 4 سینٹروں کے ارد گرد چکر کاٹنے کی وجہ سے انکی وہ سیاسی تربیت نہیں ہو پاتی جو کسی سیاسی ورکر کا طرہ امتیاز ہوتی ہے ۔
6.
یہ اقلیتی انتحاہی نظام اور خواتین کو مخصوص نشستں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے والا انتحابی نظام آئین کی شق 226 سے بھی متصادم ہے
7.
سیاسی حکمران و انکے رفقاء اقلیتی نمائندوں کو نشستیں بانٹنے کے بعد ان تقریبآ ایک کروڑ دھرتی واسیوں کے روز مرہ کے مذہبی شناخت پر پیدا ہونے والے مسائل سے یکسر بیگانہ ہو جاتے ییں۔
8.
یوسی سے نیشنل اسمبلی تک مذہبی شناخت پر چنے جانے والے نمائندگان کا ووٹرز سے تعلق نہ ہونے کی بنیاد پر کسی مذہبی تصادم /تناظے کے نتیجے میں غیر متعلق لوگ اس ویکوم پورا کرکے بہت ساری سماجی و معاشرتی برائیوں کا سبب بنتے ہیں ۔ اس نظام کے سب سے بڑے حامی بھی یہ ہی خواتین حضرات ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ براہ راست اس نظام سے وابستہ افراد بھی اس نظام کی خامیوں کو مانتے ہیں۔ لیکن یہ سوداگران محرومیاں اس نظام کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں ۔
9.
یوسی سے نشینل اسمبلی تک کے حلقے سیاسی ورکروں اور غیر مسلم شہریوں میں تعلق ناپید ہونے کی بدولت محرومیوں کی سوداگری کی صنعت میں روز بروز اضافے کی بدولت عام غیر مسلم شہری معاشرے سے بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہورہا ہے ۔
10. 2001 ایک 2024 تک پانچ بار تسلسل سے یہ نظام دوہرایا گیا ہے ۔۔ مشاہدے میں یہ آیا ہے ۔کہ موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام میں مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والے خواتین وحضرات جس پارٹی کی مرضی و منشا سے چنے جاتے ہیں۔ اگر اس جماعت کی حکومت کا کوئی عمل انکے اس مذہبی گروہ جسکی شناخت پر وہ نمائندگی حاصل کرتا ہے ،کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہو تو وہ نمائندہ پارٹی پالیسی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔ ناکہ اپنے لوگوں کے ساتھ ۔11.اقلیتی شہری معاشی طور بہت کمزور ہیں ماسوائے ہندوؤں کے ایک خاص طبقے کے یہ طبقہ اپنی مالی استعداد کی بدولت 24 صوبائی نشستوں 10 قومی اسمبلی کی نشستوں کے علاؤہ 4 سینٹرز کی نشستوں میں سے بھی زیادہ تر نشستیں اپنی اس استعداد کی بدولت حاصل کر لیتا ہے ۔ باقی چند نشستیں تزویراتی اہمیت کی حامل ایک کمیونٹی کو دے دی جاتی ہیں.باقی ماندہ کے حصول کے لئے مسیحیوں میں وہ مضحکہ خیز مقابلے ہوتے ہیں، کہ تقریبا چالیس لاکھ مسیحیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ۔۔ بہت تھوڑے وسائل کے بغیر سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکروں جو سیاست میں داخل ہوتے ہیں ان کو حالات ونظام کے جبر کی بدولت مینارٹی ونگز (جو موجودہ اقلیتی نظام کی ہی پیداوار ہے ۔)کی سیاست میں دھکیل کر انھی 38کے گرد گمھن گھیراں کھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔۔
نچوڑ
ان ساری خامیوں کی بدولت اس نظام میں تبدیلی کیوں نہ ہوسکی ۔
1.
اقلیتی مذہبی ،سیاسی،سماجی ورکروں کی اس مسلئے کی تفصیلات اور اس سے پیدا ہوئے والی مسائل کے بارے میں لاعلمی
2.
اس مسلے کی شدّت کو سمجھنے والی این جی اوز ( چاہے وہ چرچ کے زیرِ اثر ہوں یا کسی کی نجی ملکیت) ایک مخصوص اقلیت کی سوچ اور بین الاقوامی طاقتوں اور این جی اوز پر اس اقلیت کے اثر رسوخ کے زیر اثر اسے معاشرے کی دانشور اشرفیہ تک پہنچنے ہی نہیں دیتا ۔
3
۔ اقلیتوں خصوصاً مسحییوں کے وہ طاقتور فورم جہاں سے توانا آواز اٹھ سکتی ہے ۔انکی لاعلمی ،عدم دلچسپی و بے حسی اور ایک مخصوص اقلیت مفادات کے تحفظ کے عوض وابستہ مفادات کی بدولت چپ سادھنے کا شرم ناک رویہ
4.
سیاسی ،سماجی و مذہبی طور پر متحرک لوگوں کو حکومت و ریاست نے 38 نمایندگان کے زریعے انگیج کرکے ریاستی وسائل میں سے تھوڑا بہت حصہ دار بنایا ہوا ہے ۔
5.
اس نظام سے 98فیصد اقلیتی شہری ناخوش ہیں ۔لیکن سیاسی طور متحرک جو لوگ اس نظام کے خلاف جدو جہد کر رہےہیں ۔ اپنے اپنے فورم پر وہ انفرادی کوششیں تو کرتے ہیں ۔لیکن کوئی منظم ،اجتماعی کوشش نہیں کرتے ۔جس کی وجہ شناختی بحران اور ایسے فورم کے مالی مفادات ہوسکتےہیں ۔
6.
جداگانہ طریقہ انتحاب سے جان چھڑانے والے اقلیتوں کے محسن منظم چرچزاور این جی اوز کے اس وقت کے سماجی ومذہبی ورکروں کے موجودہ جانشین کارکن و راہنماؤں کی علمی سعتداد کی کمی اور بصورت دیگر ایک مخصوص فکر بدولت طرز کوہن پر ڈٹے رہنے کی ذہنی کفیت
نچوڑ ۔
اس مسلئے سے جڑے ہر پہلو سچ حقائق کو متاثرین و ذمدارین تک پہنچایا جائے ۔
اس کے بعد اس بات کو بھی یقینی بنانا جائے کہ اقلیتوں کے لئے موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام میں ایسی بے ضرر اور معمولی ترامیم کی جائیں۔۔، جس سے اقلیتوں کا جنرل انتحاب میں یوسی سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے الیکشن لڑنے کا ووٹ ڈالنے کا حق بھی محفوظ رہے ۔ اور ہر اقلیتی گروہ کا نمائندہ جو ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرے اسے یوسی سے قومی اسمبلی تک میں وہ ہی کمیونٹی منتحب کرے جن کی شناخت پر وہ یہ نمائندگی حاصل کرے ۔۔ اسکے لئے 1985سے 1997تک پانچ بار والے جداگانہ انتحاہی نظام کے مرکزی خیال سے افادہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کے پاکستان کی ہر وفاقی اکائی سے اقلیتوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی ملے ۔ یہ سب ایک معمولی سی آئینی ترمیم سے ممکن ہے ۔جس کے زریعے موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام جو کہ بنیادی طور الذکر ساری خامیوں کے باوجود دوہری نمائندگی کا نظام ہے۔ اسے دوہرے ووٹ سے مشروط کر تقریبا ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کو خؤش و مطمئن کیا جا سکتا۔اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اس مسلئے کو حل کرکے حکومت و ریاست قومی و بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کما سکتی ہے ۔