۔ 95 فیصد اقلیتیں موجودہ انتحاہی نظام سے نا خؤش ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی, ریاستی و دانشور اشرفیہ خاموش کیوں ؟

تحریر: اعظم معراج

مخلوط الیکشن کے بانجھ پن کے خلاف احتجاج میں30 اگست 1972 کو مسیحو کی شہادتیں نتیجہ 21نومبر 1975 کو چوتھی آئینی ترمیم کی صورت ہؤا بے۔بے حس اشرفیہ نے جو ترمیم کی وہ بھی کسی عرق ریزی کے بغیر کی کروانے والے بھی پتہ نہیں احتجاج کس لئے کر رہے تھے.؟ چایئے کیا تھا ؟۔ انھوں نے جمہوری غلامی دے دی،انھوں نے لے لی ۔ اسی طرح جب 1985 میں ضیاء نے پوچھا بھٹو کے نظام سے شاکی ہو تو کیا چاہیے تو بغیر کسی ہوم ورک یا متبادل کے سیاسی شودر بننے والا جداگانہ منظور کر لیا ۔۔پھر جب یہ پانچ بھر چلا تو چیخ پڑے ہمیں سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیا گیا ہے ۔ یوں مذہبی پنڈت اور این جی اوز کے سقراط پھر بھٹو والا موجودہ جمہوری غلام والا سیاسی نظام لے آئے ۔۔اج جب 95فیصد اقلیتیں اس کے مذیبی شناخت والی نمائندگی طریقے پر چیخ رہی ہیں.. تو مذہب کے بیوپاری اور جمہوری غلاموں اور محرومیوں کے سوداگر، این جی اوز والوں نے، اپنی مذہبی حیثیت ،ریاستی و سیاستی اشرفیہ سے قرب اور اور ریاستی و سیاستی اشرفیہ کی بے حسی کی بدولت یہ چاروں فریق اس جمہوری غلام پیدا کرنے والے نظام کے حامی بنے ہوئے ہیں ۔۔جبکہ اقلیتوں کے لئے انتحابی نظام کا مطالبہ ڈیمانڈ جب 1906میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلمانوں نے اپنی اشرفیہ سے کیا تو انگریز اشرفیہ نے عرق ریزی سے 1909کا ایکٹ پاس کیا سیکرٹری ہند اور وائسرائے ہند دونوں نے محنت سے توجہ دلچسپی سے کام کیا اسی لئے تاریخ میں یہ مورلے، منٹو اصلاحات کے نام سے یاد کی جاتی ہیں پھر ساری اقلیتوں کو خؤش کرنے کے لئے اگلی حکمران اشرفیہ نے 1919میں اس میں مزید اصلاحات کی اور دیگر برصغیری اقلیتوں کے لئے بھی انتحابی نظام میں گنجائش نکالی۔پھر 1930میں گول میز کانفرنس میں متاثرین و ذمدارین نے خوب عرق ریزی کی جسکے نتیجے میں اقلیتوں کو کمیونیل ایوارڈ دیا گیا ۔۔جس پر گاندھی جی احتجاج کیا نتیجہ پونا پیکٹ کی صورت میں امبیڈکر کو دوہرے ووٹ سے دستبردار ہونا پڑا لیکن اپنے لوگوں کے لئے دھرم کے اندر رہتے ہوئے انھوں نے بے تحاشا مطالبات منوا لئے ۔لیکن دوہرے ووٹ سے دستبرداری کا انھیں تمام عمر افسوس رہا وہ کہتے ایک ووٹ ہماری شناخت اور دوسرا طاقت بنتا ۔۔ شیڈول کاسٹ اس دوہرے ووٹ سے محروم رہے۔ لیکن دیگر اقلیتیں اس سے 1946فیضیاب ہوتی رہی ۔لیکن فیض یاب ہونے والے متاثرین جب ذمدارین کی پوزیشن میں آئے تو انھوں نے اقلیتوں کو سیاسی شودر ،اور معاشرتی اچھوت بنانے والا جدا گانہ طریقہ انتحاب دیا جسے ایوب اور پھر بھٹو نے ختم کیا لیکن ضیاء نے اقلیتوں کے کہنے پر دوبارا نافذ کیا ۔جب یہ پانچ بار چلا تو لوگوں سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت پن کا احساس ہؤا تو پھر مشرف نے بھٹو والا نظام بحال کیا ۔اب اس میں اقلیتی نمائندوں کے نام پر جمہوری غلام بنانے والی شق کے نقصانات سامنے آنے سے اقلیتیں پھر سراپا احتجاج ہیں ۔۔لیکن 76سالہ اس سیاسی المیے کا مختصر جائزہ یہ بتاتا ہے کہ نہ کبھی متاثرین مطالبہ ڈھنگ سے کرسکے نہ ذمدارین نے ان خاک نشینوں کے بارے سنجیدگی سے سوچا۔تحریک شناخت نے 1909سے آج تک کے اس اقلیتی سیاسی مسلئے کے بغور جائزے سے برصغیر کے معروضی حالات و تاریخی اور مذہبی پس منظر کے مطابق ایک متبادل دیا ہے ۔ جسکے سوفیصد شیڈول کاسٹ ہندو جو ہندؤ آبادی کا نوے فیصد ہیں حامی ہیں۔۔۔ جبکہ ہندؤ جاتی کی اکثریت بھی اس کی حامی ہے ۔۔مسحیوں کی اکثریت بھی اس متبادل دوہرے ووٹ کی حامی ہے لیکن مسحییوں کے محرومیوں کے سوداگر ، اور ہندؤ و مسیحی جمہوری غلام ،اور مذہب کے بیوپار سے وابسطہ مسیحی سیاسی اشرفیہ کو سب اچھے کی رپورٹس دے کر اس مسلئے کی شدت کا احساس ہی ہونے نہیں دیتے ۔ ہندؤ جمہوری غلاموں کا یہ خوف اس مطالبے میں رکاوٹ ہے ۔کہ ان کی اکثریت شیڈول کاسٹ اپنی اکثریت کی بنیاد پر انھیں نظام سے باہر پھینک دے گی۔۔ جبکہ ایسا بلکل نہیں ہے وہ اپنے وسائل کی بنیاد پر اپنے ان بچھڑے ہوؤں کے لئے محبت اور آسانیاں پیدا کرکے ان کے ووٹوں کی طاقت اور اپنے مالی وسائل کے امتزاج سے پاکستانی معاشرے میں بہت خوبصورت ہندؤ سماج کا نمونہ پیش کرسکتے ہیں ۔ جبکہ مسیحی محرومیوں کے سوداگر مذہبی بیوپاریوں اور جمہوری غلاموں کا خوف یہ ہے۔ کہ موجودہ نظام کے خراب پہلو کی بدولت جو جمہور کے اس نظام سے نفی ہونے کے باعث جو خلا انھوں نے پر کیا ہے ۔اگر اقلیتوں کو یوسی سطح سے قومی اسمبلی تک اپنی مذہبی شناخت والا نمائندہ بھی اپنا نمائندہ اپنے ووٹ سے منتخب کرنے کا حق مل گیا، تو اسکے نتیجے میں جو سیاسی لیڈر شپ ابھرے گی۔ وہ جمہور، ریاست اور حکومتوں کے درمیان پل بن کر اس خلا کو پُر کرلے گی ۔۔جسکی بدولت آج یہ مالی مفادات کے ساتھ اپنے جزبہ خؤد نمائی کی تسکین کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ چاروں فریق نوے لاکھ لوگوں کے اس مطالبے کو زیادہ دیر اگنور نہیں کرسکیں گے ۔۔بس ضرورت اس بات کی ہے۔۔ کہ اگر آپ تحریک شناخت کے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کے حامی ہیں تو خدارا اپنی این جی او سیاسی جماعت کی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اس مطالبے کو باقاعدہ سمجھ کر دوہرائیں اکثر دیکھنے میں آیا ہےکہ ،اپنی انفرادیت کے چکر میں ہم مطالبے کی روح سے ہی ہٹ جاتے ہیں جب کہ یہ انتہائی سادہ مطالبہ ہے ۔ کہ اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ سے مشروط کردیں ۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading