تحریر: اعظم معراج
داس صاحب! آپ کو پاکستان بھر کے تقریباً 22 لاکھ ہندو ووٹروں (جن کی اکثریت سندھ میں ہے) کی نمائندگی کے لیے قومی اسمبلی کا ممبر مسلم لیگ (ن) کے راہنماؤں کی طرف سے چُنے جانے پر مبارک باد۔ اس کے بعد چند گذارشات ہیں کہ۔
برّصغیر کی تاریخ میں عوام الناس کی بھلائی کے لیے سیاست کرنے والے ہندووں میں بہت بڑے بڑے تاریخ ساز نام گزرے ہیں۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں اس وقت مخصوص نشستوں والے 38اقلیتی نمائندوں میں سے اکثریت بھی ہندو بھائیوں کی ہے۔ چند جنرل نشستوں پر جیتنے والے پاکستانی ہندو حضرات اور ایک دو مخصوص خواتین کی نشستوں پر نمائندگی والی بھی ہوں گی، لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ سب انتہائی ”بے ضرر“، ”پرسکون“ سے پارلیمینٹیرین ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1970 کے انتخابات کے بعد سے اقلیتی انتخابی نظام نے آج تک جو بھی ارتقائی سفر طے کیا ہے، اس میں تین دفعہ جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، اس میں صرف مسیحیوں کی جدوجہد اور قربانیاں شامل ہیں، ہندو پارلیمنیٹیرینز، سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والا سب سے زیادہ ہندو شہریوں کا ایک خاص طبقہ ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں ہندو سماج کو خارجی کے علاوہ اندرونی داخلی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ 1970سے 2002 تک انتخابی نظام کے مسئلے پر مسیحی مسلسل سراپا احتجاج رہے ، جس کی وجہ سے تین بار یہ نظام تبدیل کرنا پڑا۔ اب بھی 90 فیصد غیرمسلم موجودہ نظام سے غیرمطمئن و بے چین ہیں، اور مسیحیوں کی بہت ساری سماجی و سیاسی تنظیمیں اس پر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ تحریک شناخت اس مسئلے کو منظم انداز میں متاثرین و ذمے داران تک پہنچا بھی رہی ہے، اور اس سیاسی المیے کی سنگینی کا احساس دلانے کے ساتھ پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق مکمل متبادل بھی پیش کر رہی ہے، لیکن ماضی میں ان نظاموں میں تبدیلی کروانے والی مسیحی این جی اوز (جن میں ذاتی اور گرجے کی چھتری تلے چلنے والی این جی اوز بھی شامل ہیں) اور موجودہ نظام سے جُڑے سیاسی ورکر بھی موجودہ انتخابی نظام کو (جس میں تقریباً 90 لاکھ غیرمسلم شہریوں کی شناخت پر نمائندے چننے کا حق صرف 3 یا 4 سیاسی جماعتوں کے راہنماوں اور ان کے رفقاءکے پاس ہے) کو بہترین نظام سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ چپ سادھے ہوئے ہیں، بلکہ منظم انداز میں پس پردہ رہ کر 90 لاکھ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کے حق کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان کی اس سوچ کی وجہ سے اب یہ سفر رک گیا ہے۔
اس صورت حال میں ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس موجودہ دوہری نمائندگی والے نظام کو دوہرے ووٹ سے مشروط کروانے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ میں نے اور میرے ہم خیال ساتھیوں نے، جن میں کثیر تعداد میں ہندو ساتھی بھی شامل ہیں، 1909سے آج تک کے برصغیر کی اقلیتوں کے لئے وضع کیے گئے انتخابی نظاموں کے بغور مطالعے کے بعد اس نظام میں ترمیم کے لیے لائحہ عمل تیار کیا ہے، جو بے ضرر سی آئینی ترمیم سے نافذ ہوسکتا ہے۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ اس نظام کے نفاذ سے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل میں سے 80 فیصد کے حل کا خودکار نظام وجود میں آسکتا ہے۔ گوکہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی اس مسئلے سے دل چسپی نہیں رکھتی۔ اول الذکر این جی اوز اور موجودہ نظام سے وابستہ افراد کے مفادات اس نظام میں تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب کہ میں اس نظام سے وابستہ افراد کے بارے میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میرے اس یقین کی وجہ آپ جیسے دیگر افراد سے اکثر سے کی گئی ٹیلیفونک گفتگو اور سابق ایم این اے رمیش کمار کی 2013 میں پیش کی گئی دوہرے ووٹ کی ترمیم اور عامر جیوا کی اکثر اس موضوع پرخلوصِ لیکن غیرمدلل اور غیرمنظم طریقے سے آواز اُٹھانا ہے۔ آپ اس آئینی ترمیم کے لیے اپنی سیاسی جماعت میں لابنگ کرنے کے بعد اس ترمیم کو منظور کروا کر اپنا اور اپنی جماعت کا نام تاریخ میں لکھوا سکتے ہیں۔
!داس صاحب
24 کروڑ میں سے 336کی فہرست میں شامل ہونا بھی یقیناً قابلِ ذکر اعزاز ہے۔ لیکن اس فہرست میں شامل ہو کر اس ملک کے تقریباً 90 لاکھ کے قریب آئینی طور پر دوسرے درجے کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی آئینی ترمیم کروا جانا ایک ایسا اعزاز کا کام ہوسکتاہے جس پر نہ صرف آپ کو ناز رہے گا بلکہ متاثرین کی موجودہ اور آنے والی نسلیں بھی اس کارنامے پر ہمیشہ آپ کی احسان مند رہیں گی۔ یہ ترمیم مجموعی طور پر پاکستانی قوم کے بھی مفاد میں اور قومی سلامتی کے لیے مثبت نتائج کی حامل ثابت ہوگی، جس سے آپ کی سیاسی جماعت کے راہنما بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کما سکتے ہیں۔ اس خط کے ساتھ میں آپ کو 54 صفحات پر مشتمل مکمل لائحہ عمل بھیج رہا ہوں، جو ”دوہرا ووٹ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے کیوں ضروری ہے۔؟ اور یہ کیسے ممکن ہے؟“ جیسے سوالوں کے جواب، پر مبنی ہے۔ اس دستاویز کی کہ مدد سے آپ بہ آسانی آئینی ترمیم تیار کرسکتے ہیں۔
!داس صاحب
تاریخ میں نام لکھوانے کا موقع ہر کسی کو ہر وقت نہیں ملتا۔ نہ ہی انسان ہزاروں سال زندہ رہ سکتا ہے۔ اس لیے اپنے ، ملک وقوم اور اس ملک کی اقلیتوں کے مفاد میں اس وقت کو امر کرلیں۔ اس ضمن میں آپ جب چاہے ہم آپ کی فکری اعانت اور مشاورت کے لیے حاضر ہیں۔
اُمید ہے، آپ اس خط کو اسی سیاق و سباق میں پڑھیں، اور سمجھیں گے جس میں یہ لکھا گیا ہے۔