کیا آج بھی کسی ،جناح ،گاندھی ،امبیڈکر یارمزے میکڈونلڈ کی تلاش میں ہیں
تحریر: اعظم معراج
برّصغیر میں دھرم کے نام پر ذات،پات کی بنیاد پر چھوت چھات کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔۔ جس کی بنیاد پر پسے ہوئے طبقات پر مشتمل آبادی کے ایک بڑے طبقے کو غیر انسانی زندگیاں گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ظلم وجبر واستحصال کا یہ کھیل ہزاروں سال جاری رہا ۔ فاتحین برّصغیر کو روندتے رہے۔ لیکن اس میں کچھ فرق نہ پڑا فاتحین کے ساتھ آنے والے صوفیاء کرام نے اس سماجی برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکافی ہی رہی۔کیونکہ اس میں حکومتی و ریاستی کوششیں کبھی بھی شامل نہ رہی ۔برصغیر کے آخری فاتحین نے 1833 میں ہی اپنے قبضے کو برطانوی پارلیمنٹ سے جمہوری سند دلوانے شروع کردی تھی ۔جسکا ارتقائی سفر انڈین ایکٹ 1833 سے شروع ہو کر 1935,1921,1921,1919,1915,1912,1909,1857
چلتے 1935پر ختم ہؤا۔ جو آخری ایکٹ تین ملکوں کے آئینوں کا منبع بھی ہے، اور 14اگست 1947سے مارچ 1956 تک یہ ہی انڈین ایکٹ آئین پاکستان تھا ۔ اسی ارتقائی سفر میں 1921کو شروع ہونے والی گول میز کانفرنسوں کا موڑ آیا۔ یہاں ایک نیا کردار برّصغیر کے افق پر ابھرا یہ 1924میں نو مہینے اور پھر 1929سے 1931تک اور پھر 1931 سے 1935 تک برطانوی وزیراعظم رہنے والے والے رمزے میکڈونلڈ تھے۔ جنہیں شوق چرایا کہ وہ برصغیر کے غریبوں کے دوست کہلائیں انھوں نے اپنے اس انسان دوستی کے شوق کی بناء پر ہزاروں سال سے دھرم،ذات, پات کے نام پر ظلم کی چکی میں پستے ,ذلہیتں سہتے ، غیر انسانی زندگیاں گذارتے طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے ان پسے ہوئے طبقات کی تمام ذات برادریوں قبائل کو شیڈول کاسٹ کے نام سے ایک پہچان دی ۔۔ یہ سارے مسائل۔ بھیم راؤجی امبیڈکر نے آجاگر کئے ۔۔یہ خؤد بھی ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لگن ،محنت سے اعلی تعلیم حاصل کی اور ان پسے ہوئے طبقات کے لئے مسحیا ثابت ہؤے۔ رمزے میکڈونلڈ نے اپنے دور حکومت گول میز کانفرنسوں میں دلتوں کو بھی بطور اقلیتی برادری کے شامل کیا نتیجہ کمیونیل ایوارڈ کی صورت میں نکلا ، جس میں انھیں ہندوؤں سے علحیدہ اقلیتی برادری تصور کرتے ہوئے، دیگر اقلیتوں کی طرح دوہرے ووٹ کا حق دیا گیا ۔جو پھر گاندھی ,امبیڈکر پونا پیکٹ کی نذر ہوا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کانگریس نے شیڈول کاسٹ کو ہندؤ سماج کے اندر رکھنے کے لئے شیڈول کاسٹ/،دلتوں /،ہریجنوں / اچھوتوں کو کمیونیل ایوارڈ سے بھی دوگنی نشستیں مخصوص کرنی پڑی ،ساتھ ہی سرکاری ملازمتوں میں انکے لئے کوٹا بھی طے پایا لیکن بی آر امبیڈکر ساری عمر اس بات پر غم زدہ رہے اور اپنے رفقاء سے کہتے رہے ” دوسری اقلیتوں کی طرح ہمیں دوہرے ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستیں مل جاتی تو جنرل نشست والا ووٹ ہماری طاقت اور مذہبی شناخت والا ووٹ ہماری شناخت بنتا۔۔”۔۔امبیڈکر جو انڈین آئین کے بانی بھی مانے جاتے ہیں ۔انکی اور رمزے میکڈونلڈ کی بدولت آج بھارتی سماج میں ہزاروں سال سے چلا آتا وہ چھوت چھات کا نظام ختم ہوتا جارہاہے ۔ اس میں یقیناً گاندھی جی کا کردار بھی شاندار تھا جو امبیڈکر کی تلخ باتوں کے جواب میں کہتے کہ “اگر امبیڈکر مجھے منہ پر گالی بھی دے تو جائز ہے” کیونکہ ذات پات کی بنیاد پر ان سے بہت ظلم ہؤا ہے۔۔۔۔شیڈول کاسٹ میں جن ذات برادریوں اور قبائل کو شامل کیا گیا انکی تعداد سینکڑوں میں تھی ۔۔جن میں سے 40کے قریب پاکستان کے سرکاری کاغذات میں زندہ ہیں ۔ یہ مندرجہ ذیل ہیں ۔کالال ،.خاٹک ،کوہلی ،کوچیرا،ماریجا ، ماریچا ،میگھ واڑ ،نٹ ،. مینگھواڑ . ،کوٹی .اوڈ ،۔پاسی ،.پرما۔،.رام داسی ۔،سانسی ،.ساپیلا، شکاری ،.سوچی ،.واگڑی ،سارپرا ۔۔سرکی بند ،.اودھرمی ،.بنگالی ،.برار ،باویرا ،بھنگی ،بانجیرہ ،چمار ،۔چانل ،.چارن ،. چوہڑا/بالیکمی
(حال ہی میں ایک سرکاری خط کے ذریعے چوہڑا لکھنا منعوع قرار دیا گیا ہے) ، داگی اور کولی ،.دھانک ۔،ڈومنا ،گانڈھیلا ،.گاگرا ،ہارا خور ،.جاٹیا ،بازیگر ،بھیل ۔
پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگںندر ناتھ منڈل بھی اسی طبقے سے تھے۔ پاکستان کے وزارت شماریات کے ریکارڈ میں جہاں اقلیتوں کے کالم بنائے گئے ہیں ان میں بھی شیڈول کاسٹ بھی ہے۔یہ کالم 1951 سے 1998تک مندرجہ ذیل تھے ،مسلمان، مسیحی ،ہندو جاتی ،قادیانی ، شیڈول کاسٹ بدھسٹ ،پارسی اور دیگر ہیں ۔لیکن حیران کن طور پر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیڈول کاسٹ کا علحیدہ خانہ نہیں ہے ۔جب کہ وزارت شماریات کے مقابلے میں الیکشن کمیشن نے اس میں دو مذہبی اقلیتوں کا اضافہ کیا ہے ،جن میں سکھ اور بہائی شامل ہیں ۔۔ اس کا مطلب یہ ہؤا کے کانگریس امبیڈکر پونا پیکٹ پاکستان میں شائد ابھی بھی لاگو ہے ۔ خیر ہمارا موضوع کچھ حقائق و مشاہدات ہیں جو
” پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری اور کیسے ممکن ہے ۔؟
نامی کتابچے کے لئے تحقیق کے دوران سامنے آئے ہیں, وہ یہ ہیں ۔ 1.شیڈول کاسٹ ،دلت ،دراوڑ، ادھی واسیوں ، بھیل ،کولہی میگھواڑ ، و ایسی دیگر دسیوں شناخت پر قائم این جی اوز یا سیاسی گروپوں کی متفقہ رائے ہے,کہ پاکستان میں شیڈول کاسٹ مجعوعی ہندؤ آبادی کا زیادہ سے زیادہ 90فیصد اور کم ازکم 80فیصد ہم ہیں ۔
2. وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 1951 میں جب ہندؤ جاتی کی تعداد 160684 تھی اس وقت شیڈول کاسٹ 3,69831 آبادی تھی ۔
1961میں ہندؤ جاتی کی تعداد 203794تھی اس وقت شیڈول کاسٹ 4,18011تھے ۔
1972میں ہندؤ جاتی 296837 تھے،جبکہ شیڈول کاسٹ 6,03،369 تھے ۔
1981میں وزارت شماریات کے کاغذوں میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھآ ۔ جبکہ ہندؤ جاتی 12,76,118ہوگئے
1998مییں جب یہ خانہ دوبارا آیا تو ہندؤ جاتی آبادی بڑھ کر21,11,271 ہوگئی اور شیڈول کاسٹ وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 3،32،343 رہ گئے
2017کی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ 8,49,614اور ہندؤ جاتی 35,95,256 ہے ۔۔
یہ حقائق اور تاریخی پس منظر کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔1.پہلی تین مردم شماریوں میں شیڈول کاسٹ مجعوعی ہندؤ آبادی کا 57 سے 67فیصد تک تھی۔ وہ کیسے گھٹ کر 23 سے 24فیصد رہ گئی ہے ۔
2.شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی مسلسل چیخ پکار کے باووجود ریاست و حکومتوں کے کانوں پر جوں تک کیوں نہیں رینگتی ۔
3.شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اجتماعی و انفرادی کوششوں میں ایسی کیا کمزوریاں ہیں ،جو اتنی بڑی زیادتی ریاستی و حکومتی ایوانوں تک مؤثر طور پر نہیں پہنچ پا رہی ۔
4. شیڈول کاسٹ مالی، معاشی فکری اعتبار سے پسماندہ ہیں۔وہ بیچارے ہزاروں فورم و انفرادی کوششوں کے باوجود وہ کچھ حاصل نہیں کر پارہے ۔ (وجوہات کے لئے ایک اور تفصیلی مضمون کی ضرورت ہے) ۔۔۔
5 کیا وہ آج بھی کسی قائد اعظم ، راؤ بھیم جی امبیڈکر , جوگںندر ناتھ منڈل یا گاندھی جی کی تلاش میں ہیں. ان شخصیات نے ہزاروں سال اپنے اجداد کی دھرتی پر ذلیتں سہتے ان دھرتی واسیوں کی داد رسی کی؟
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کانسٹوینٹ (دستور ساز) اسمبلی کے پہلے سیشن کی صدارت کے لئے ایک شیڈول کاسٹ جوگںندر ناتھ منڈل کو چنا ،پھر انھیں پہلا وزیر قانون بنایا، امور کشمیر کا وزیر بنایا۔جو قائد کی وفات کے بعد سیاسی و ریاستی اشرفیہ کے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر ہجرت کرگئے ۔۔اخر میں ،شیڈول کاسٹ کے حقوق کے لئے کوشاں دوستوں کو ایک ہی مشورہ ہے پہلے آپ اپنے آپ کو انفرادی ؤ اجتماعی طور پر جانو جب اجتماعی خود آگاہی ہوگی تو خود مختاری آئے گی۔
کیونکہ بقول
اقبال
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
تو کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
اگر آپ کو اپنے مسائل کا ادراک ہو گیا۔ تو یقیناً آپکی والی نسلوں کو اس معاشرے ،ریاست سے کئی قائد اعظم کی سوچ رکھنے والے رمزے میکڈونلڈ ،یا آپ کے اپنے بچھڑے ہوؤں میں سے گاندھی جی کی سوچ والے بہت مل جائیںگے۔۔ بس آپ لوگوں کو اپنے مسائل کے طویل المیعاد حل کے لئے چند پڑھے لکھے ،فہم وفراست ،صبر ،جرات اظہار ، تدبر ، پرخلوص ،اجتماعیت کے فوائد پر یقین رکھنے والے نوجوان تیار کرنے پڑے گے۔۔ جنھیں اپنے مسائل کا ادراک ہو انھیں حل کرنے ،کروانے کی سمت کا پتہ ہو ۔ انھی میں سے پھر امبیڈکر اور جوگںندر ناتھ منڈل نکلیں گے۔ بس یہ یاد رہے۔کہ آپ کے بچھڑے ہوئے (ہندؤ جاتی والے)چاہے آپکی آبادی کا بیس فیصد ہیں ۔ یا 30 فیصد ان سے صلح صفائی سے ہی اس معاشرے میں ہندؤ سماج کی ترقی وبقاء ہے ۔ اور پھر ریاست سے حقوق لینے کے لئے لازمی نہیں کے ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کیا جائے ۔ بلکہ اپنی کمزوریوں توانائیوں اور معاشرے کے معروضی حالات میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں کا اندازہ صحیح سے لگانے کی ضرورت ہے ۔۔سب اقلیتوں کے مسائل تقریبا ملتے جلتے ہیں ۔اپنے اجتماعی تجزیہ طکمخ پر زور دیں ۔ اپنے اجتماعی مسائل کو سمجھیں ۔۔۔اس وقت کے 38 اقلیتی ایوانوں میں تشریف فرما خواتین و حضرات کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے ،کہ انفرادی طور پر کوئی سیاسی ورکر چاہے اس ملک کی سیاسی اشرفیہ سے جتنا مرضی نزدیک ہو جائے موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام سے اسکے جتنے مرضی مفادات جڑے ہوں ۔لیکن جب تک وہ اپنی کمیونٹی کی اجتماعی فلاح کا نہ سوچے تو وہ کچھہ بھی سینٹر ،ایم این اے ،ایم پی اے, وزیر, مشیر تو ہوسکتا ہے ۔۔سیاسی راہنماہ نہیں ہوسکتا۔
Khuda ne aaj tk us qaum ki halat nhi badli
Na ho khiyal jise aap apni halat k badalne ka .
Khalid Meraj sahib ap mohsine Qaum hn .